نئے وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے نمبرز گیم کیا ہے، کون جیتے گا؟

16 اپریل کو نئے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں حمزہ شہباز کی یقینی جیت کے بعد ضرورت سے زیادہ سیانہ بنتے ہوئے اپوزیشن سے دغا کرنے والے چوہدری پرویز الٰہی نہ صرف وزارت اعلیٰ کا الیکشن ہار جائیں گے بلکہ سپیکر شپ سے بھی فارغ ہو جائیں گے۔ یوں مشرف دور سے مسلسل اقتدار کے جھولے لینے والے پرویز الٰہی نہ صرف حکومت سے باہر ہوجائیں گے بلکہ سیاسی طور پر بھی غیر متعلق ہو جائیں گے۔ اپوزیشن جماعتوں سے وزارت اعلیٰ کی یقین دہانی حاصل کر لینے کے بعد آخری لمحات میں دھوکہ دے کر عمران خان کے ساتھ چلے جانے والے پرویز الٰہی نے اس حرکت سے نہ صرف اپنی سیاسی ساکھ تباہ کی بلکہ چوہدری خاندان میں بھی دراڑ ڈال دی۔ خیال رہے کہ وزیر اعظم کے الیکشن میں چوہدری شجاعت حسین کے بیٹے اور پرویز الٰہی کے بھتیجے سالک حسین نے شہباز شریف کو اپنا ووٹ دیا۔
پرویز الٰہی کی اس حرکت سے ایک اور بڑا نقصان یہ ہوا کہ قاف لیگ ٹوٹ گئی اور اس کے سیکرٹری جنرل طارق بشیر چیمہ نے بھی استعفیٰ دے دیا۔ یاد رہے کہ چوہدری سالک حسین اور طارق بشیر چیمہ کے شہباز شریف کو ووٹ دینے کے عمل کو پارٹی صدر چوہدری شجاعت حسین کی تائید حاصل تھی۔
وفاق میں اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور شہباز شریف کے نئے وزیراعظم بن جانے کے بعد پنجاب میں نئے وزیر اعلیٰ کے الیکشن کے لیے میدان 16 اپریل کو سجے گا۔
بظاہر ایسے لگتا ہے کہ غیر ضروری طوالت اختیار کر جانے والا وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب ون سائیڈڈ ہوگا اور حمزہ شہباز شریف آسانی سے جیت جائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستانی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ باپ اور بیٹا مرکز اور پنجاب میں چیف ایگزیکٹو بن جائیں گے۔ خیال رہے کہ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو استعفیٰ دیے ہوئے بھی ایک مہینہ ہونے کو ہے لیکن وزیر اعلیٰ کا انتخاب نہیں ہو پایا جس کی بنیادی وجہ پرویز الٰہی کے تاخیری حربے ہیں۔
یاد رہے کہ قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد عثمان بزدار کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد داخل کرا دی گئی تھی۔ اپوزیشن اتحاد نے پرویز الٰہی کو اپنا وزیر اعلیٰ کا امیدوار نامزد کیا تھا، لیکن صورت حال اس وقت یکسر بدل گئی جب پرویز الٰہی نے آخری وقت میں عمران سے ایک ملاقات کے بعد تحریک انصاف کا امیدوار بننے کا اعلان کردیا۔ یکم اپریل کو بزدار کا استعفیٰ گورنر پنجاب نے منظور کرلیا اور 2 اپریل کو نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے اسمبلی کا اجلاس بلا لیا۔ اس مختصر اجلاس کی صدارت سپیکر پرویزالٰہی نے کی اور اگلے ہی روز یعنی 3 اپریل کو الیکشن کروانے کا اعلان کردیا۔
لیکن 24 گھنٹوں کے اندر ہی تحریک انصاف کے دو بڑے گروپوں عبدالعلیم خان اور جہانگیر خان ترین گروپ نے اپوزیشن کے امیدوار حمزہ شہباز کی حمایت کا اعلان کردیا۔ چنانچہ 3 اپریل کو انتخاب نہ ہوسکا اور اس کے لئے 6 اپریل کی تاریخ مقرر کی گئی۔ لیکن جب پرویز الٰہی کو اپنی شکست یقینی نظر آئی تو انہوں نے 5 اپریل کو نہ صرف ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کے اختیارات واپس لے لیے بلکہ وزیراعلیٰ کا الیکشن بھی 16 اپریل پر ڈال دیا۔ لیکن اگلے روز دوست مزاری نے اجلاس دوبارہ 6 اپریل کو ہی بلا لیا۔
تاہم یہ اجلاس نہ ہوسکا اور اسمبلی کے عملے نے ڈپٹی سپیکر سمیت کسی رکن کو اسمبلی میں داخل نہ ہونے دیا۔
اس دوران اپوزیشن نے ایک ہوٹل میں علامتی اجلاس بلا کر اپنی طاقت ظاہر کی اور 199 اراکین کی حمایت سے حمزہ شہباز کو علامتی وزیر اعلیٰ منتخب کرلیا۔ اس کے بعد اپوزیشن نے الیکشن 16 اپریل سے پہلے کروانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا۔ تاہم لاہور ہائی کورٹ نے جلدی انتخاب کی استدعا رد کرتے ہوئے 16 اپریل کو ہی نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب کرانے کی ہدایت کردی ہے۔ اسکے علاوہ عدالت نے ڈپٹی سپیکر کے کھوئے ہوئے اختیارات واپس کرتے ہوئے انہیں ہی الیکشن کروانے کی ذمے داری سونپ دی ہے۔ حالانکہ پرویز الٰہی نے اس فیصلے کو انٹر اکوٹ اپیل دائر کرتے ہوئے چیلنج کر دیا ہے لیکن قوی امکان یہی ہے کہ عدالت اپنا فیصلہ برقرار رکھے گی۔
یاد رہے کہ پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے اسمبلی میں 186 ارکان کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔ اس سے پہلے تحریک انصاف نے مسلم لیگ ق کی مدد سے 194 ووٹوں سے عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ منتخب کروایا تھا، ق لیگ نے اپنے 10 ووٹوں سے بزدار کو سپورٹ کیا تھا جس کے عوض پرویز الٰہی کو پنجاب اسمبلی کا سپیکر بنا دیا گیا تھا۔ تاہم اس بار پی ٹی آئی کے دو بڑے گروپوں کے الگ ہونے سے صورت حال مختلف ہوگئی ہے۔ پنجاب اسمبلی کا ایوان 371 اراکین پر مشتمل ہے جبکہ حکومت بنانے کے لئے مطلوبہ 186 اراکین سے زائد کی حمایت حمزہ شہباز پہلے ہی ثابت کر چکے ہیں۔
پنجاب اسمبلی کے اندر پارٹی پوزیشن یہ ہے کہ حکومتی اتحاد میں تحریک انصاف کے پاس 183 اراکین ہیں، قاف لیگ کے پاس 10 ارکان ہیں جب کہ اپوزیشن اتحاد میں مسلم لیگ ن کے پاس 165 اراکین، پیپلز پارٹی کے پاس سات اور ایک رکن راہ حق پارٹی کا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق وفاق میں شہباز شریف کی بطور وزیر اعظم کامیابی کے بعد اب پنجاب میں ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف کا نیا وزیر اعلیٰ بننایقینی ہو چکا ہے۔