نظریہ ضرورت کی ایجاد سے اختتام تک کے سفر کی کہا نی


پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں جب بھی کوئی آئینی بحران درپیش آیا تو عدلیہ نے قانونی راستہ نکالنے کی کوشش کی، تاہم ماضی میں کیونکہ زیادہ تر فیصلے نظریہ ضرورت کے تحت دئیے جاتے تھے اس لیے انہیں عوامی پذیرائی نہ مل سکی۔ لیکن ماضی کے برعکس سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو بھرپور عوامی پذیرائی مل رہی ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ اعلی عدلیہ نے دہائیوں بعد بدنام زمانہ نظریہ ضرورت کو دفن کر دیا ہے۔
1954 میں گورنر جنرل غلام محمد نے پہلی آئین ساز اسمبلی کو برطرف کر دیا تھا۔ اس برطرفی کو تب کے سپیکر مولوی تمیز الدین نے چیف کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ چیف کورٹ نے اسمبلی کی برطرفی کو کالعدم قرار دے دیا تھا، تاہم جسٹس منیر کی سربراہی میں وفاقی عدالت نے نظریہ ضرورت کی بنیاد رکھتے ہوئے تکنیکی بنیادوں پر چیف کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
عدلیہ کی آزادی کا دوسرا امتحان تب آیا جب عدالت عظمیٰ کو 1958 کی مارشل لا حکومت میں ریاست بمقابلہ ڈوسو اور دیگر کی قانونی حیثیت پر فیصلہ سنانے کے لیے کہا گیا۔ جسٹس منیر کی زیر سربراہی کام کرنے والی عدالت نے ہانس کیلسن کے نظریہ ضرورت سے متاثر ہو کر ایک مرتبہ پھر قرار دیا کہ ایک کامیاب انقلاب یا بغاوت آئین کو تبدیل کرنے کا بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ طریقہ ہے۔
لہٰذا جنرل ایوب کی جانب سے نئی حکومت تشکیل دی گئی جس سے عدالتوں سمیت تمام قانونی اداروں نے غلط کو صحیح قرار دینے کا قانونی جواز حاصل کیا۔عدالت کے فیصلے کو مستقبل میں فوجی مہم جوئی کے لیے ایک دعوت تصور کیا گیا۔
1972میں عاصمہ جیلانی بمقابلہ پنجاب حکومت ڈوسو کیس کا فیصلہ خود سپریم کورٹ کی طرف سے شدید تنقید کی زد میں آیا، جسٹس حمود الرحمٰن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا کو غیرآئینی اور ناقابل توثیق قرار دیا تھا۔ اس عدالتی فیصلے سے یہ اُمید پیدا ہوئی کہ مستقبل میں عدلیہ ایگزیکٹو کے غیرآئینی اقدامات پر اپنی مہر نہیں لگائے گی، تاہم یہ اُمید بھی زیاد عرصہ قائم نہ رہ سکی۔
بیگم نصرت بھٹو بمقابلہ چیف آف آرمی سٹاف اور فیڈریشن آف پاکستان مقدمے میں سپریم کورٹ نے 1977 میں ایک بار پھر فوجی بغاوت کو جائز قرار دے دیا جو جنرل ضیاالحق نے کی۔ تھی۔ یوں بدنام زمانہ نظریہ ضرورت ایک مرتبہ پھر زندہ ہو گیا۔
1989 کے حاجی سیف اللہ بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان کیس میں سپریم کورٹ نے 1987 میں اسمبلی کی تحلیل اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو ہٹانے کے عمل کو غیر قانونی قرار تو دیا، تاہم چونکہ فیصلہ سنائے جانے تک ایک نئی حکومت منتخب ہو چکی تھی، اس لیے عدالت نے تحلیل شدہ اسمبلی کو بحال نہیں کیا۔ سپریم کورٹ نے 1990 اور 1996 میں آئین کے آرٹیکل 58 ٹو بی (2-B) کے تحت اسمبلیوں کی تحلیل اور وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی معزولی کو برقرار رکھا، تاہم 1993 میں ایسے ہی ایک کیس میں سپریم کورٹ نے صدر غلام اسحاق کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے حکم کو ختم کرتے ہوئے نواز شریف حکومت کو بحال کر دیا تھا۔
بعد ازاں جنرل مشرف کے اقتدار میں آنے کا سبب بننے والی 1999 کی فوجی بغاوت میں عدلیہ نے ایک بار پھر نظریہ ضرورت کے تحت فیصلہ دیا۔ بغاوت کی توثیق کرنے والے سپریم کورٹ کے بینچ پر بیٹھے ججوں میں سے ایک جسٹس افتخار محمد چوہدری تھے جو بعد میں پاکستان کے چیف جسٹس بن گئے۔ 3 نومبر 2007 کو مشرف نے پاکستان میں ایمرجنسی کا اعلان کیا اور آئین کو معطل کر دیا تاہم پاکستان کی جرات مندانہ عدالتی فیصلوں میں سے ایک فیصلہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے اس کارروائی کو غیر قانونی قرار دے دیا، بنچ کی سربراہی جسٹس افتخار چوہدری کر رہے تھے۔ یہ فیصلہ سنانے والے ججوں کو اعلیٰ عدلیہ کے 50 سے زائد دیگر ارکان کے ساتھ فوجی حکمران نے معزول کر کے عارضی آئینی حکم نافذ کر دیا، لیکن چند روز بعد نو تشکیل شدہ سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے ایمرجنسی کے نفاذ اور پی سی او کے نفاذ کو درست قرار دی دیا، اس بینچ کی سربراہی چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے کی۔ لیکن بعد ازاں31 جولائی 2009 کو سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 279 کے تحت پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007 کو اٹھائے گئے اقدامات کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔

Related Articles

Back to top button