نون لیگ کا الیکشن سیل سوشل میڈیا پر تنقید کی زد میں کیوںآ گیا؟

سابق وزیر خزانہ اور قائد مسلم لیگ ن میاں نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار کی نون لیگ کے الیکشن سیل کے چیئرمین کے طور پر تقرری سوشل میڈیا پر تنقید کی زد میں ہے۔خیال رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم شہباز شریف نے سینیٹر اسحاق ڈار کو پارٹی کے الیکشن سیل کا چیئرمین مقرر کر دیا۔ جس کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ن لیگ کی مرکزی ترجمان مریم اورنگزیب نے ایک بیان میں کہا کہ اسحاق ڈار کو الیکشن سیل کا سربراہ بنانے سے پارٹی کی انتخابات سے متعلق سرگرمیوں میں مزید تیزی آئے گی، نیز پارٹی ٹکٹ کے لیے درخواستوں کی وصولی، انتخابی ضابطوں کی نگرانی سمیت تمام متعلقہ امور کو تیزی سے مکمل کیا جائے گا۔
اسحاق ڈار یوں تو ماضی میں ن لیگ کی مرکزی حکومتوں میں وزیر خزانہ کے علاوہ کئی اہم ذمہ داریاں ادا کرتے آئے ہیں، لیکن انہوں نے گذشتہ 26 برس سے قومی یا صوبائی اسمبلی کا کوئی الیکشن نہیں لڑا۔پاکستان تحریک انصاف کے سابق رہنما اور سابق وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کے ایکس (ٹوئٹر) ہینڈل سے اسحاق ڈار کو نئی ذمہ داری ملنے پر تنقید کی گئی ہے۔ٹویٹ کے مطابق: ’ایسا لگتا ہے کہ اب یہ تقریباً ایک قاعدہ بن چکا ہے کہ آپ کو ن لیگ کی سیاست میں اچھے مقام پر رہنے کے لیے شریف خاندان سے تعلق رکھنا پڑے گا۔ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح سمجھ دار تھے کہ چلے گئے… دوسرے یا تو نااہل ہیں یا سیاسی طور پر نابلد لہٰذا خاندانی سرکس کا حصہ ہیں۔‘
سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ’ن لیگ نے الیکشن سیل کا سربراہ اسحاق ڈار کو بنا کر پیغام دیا ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم نواز شریف کی مرضی سے ہو گی۔’اس کام کے لیے انہیں نواز شریف کا قابل اعتماد دوست، قریبی ساتھی اور رشتہ دار ہونے کے باعث یہ عہدہ دیا گیا ہے۔‘سلمان غنی کے بقول: ’اسحاق دار نے 1993 میں اندرون لاہور سے قومی اسمبلی کی نشست پر ایم این اے کا الیکشن جیتا اور 1997 میں ن لیگ کی ٹکٹ پر ماڈل ٹاؤن کے حلقے سے عام انتخابات میں ایم این اے منتخب ہوئے۔’اس کے بعد انہوں نے کسی الیکشن میں بطور امیدوار حصہ نہیں لیا، بلکہ انہیں سینٹر بنا کر وزیر خزانہ بنایا جاتا رہا۔‘انہوں نے کہا کہ ’اس بار ن لیگ کسی طرح کا کوئی رسک نہیں لینا چاہتی اسی لیے امیدواروں کو فائنل کرنے کی ذمہ داری نواز شریف کے قریبی ساتھی کو دی گئی ہے۔ ان کی رسائی نواز شریف تک بھی سب سے زیادہ ہے اور پارٹی مفادات کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔‘
سلمان غنی نے مزید کہا کہ ’اسحاق ڈار کے اس عہدے پر آنے کے بعد یہ دیکھنا ہو گا کہ شہباز شریف کو، جنہوں نے ہر برے وقت میں نواز شریف کا ساتھ دیا، کیا کردار دیا جائے گا۔’اسی طرح دیگر پارٹی رہنماؤں کے حوالے سے بھی ذمہ داریاں ملنے پر ان کی اہمیت سے متعلق اندازہ ہو گا۔‘دوسری جانب صحافی ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار پہلی مرتبہ 1993 میں ضمنی الیکشن میں، دوسری مرتبہ 1997 میں عام انتخابات میں ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔ کوئی سیاسی جماعت ایسے شخص کو عام انتخابات کے الیکشن سیل کا سربراہ بنا سکتی ہے جس نے 26 سال سے ایم این اے، ایم پی اے کا الیکشن نہیں لڑا؟ کیا سمدھی ہونا ہی اصل میرٹ ہے؟صحافی لحاظ علی لکھتے ہیں کہ ن لیگ انتخابات سے قبل ہی انتخابات جیت چکی ہے ایسے میں سمدھی کو الیکشن سیل کا سربراہ بنا کر کامیابی کا سہرا ان کے سر باندھنے کی کوشش کی گئی ہے۔