کوئٹہ: مذاکرات کامیاب،دھرنا ختم، میتوں کی تدفین کا اعلان

وفاقی حکومت اور کوئٹہ میں دھرنا دینے والے ہزارہ برادری کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں جس کے بعد انھوں نے دھرنا ختم کرنے اور مقتولین کی تدفین کا اعلان کیا ہے۔
خیال رہے کہ مچھ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کان کنوں کے قتل کے خلاف احتجاجی دھرنا کوئٹہ کے مغربی بائی پاس کے علاقے میں چھ روز قبل شروع ہوا تھا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان، وفاقی وزیر علی زیدی، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری ، وزیراعظم کے معاون خصوصی ذلفی بخاری، صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لانگو نے رات گئے دھرنا کے منتظمین سے مذاکرات کیے۔وفاقی وزیر علی زیدی نے مذاکرات کے بعد دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہدا کمیٹی کے مطالبات مان لیے گئے۔’کسی حکومت نے ہزارہ برادری کے ساتھ تحریری معاہدہ نہیں ۔ صرف وعدے کئے اور کرکے چلے گئے۔ ہم نے باقاعدہ تحریری معاہدہ کیا۔ ہم تین چار دنوں سے بیٹھے تھے۔ شہدا کمیٹی نے کچھ مطالبات رکھے تھے جو مشکل تھے۔ انتظامیہ کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔ مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بن گئی ہے۔ اعلی سطح کا کمیشن بنادیا گیا ہے جس کی وزیر داخلہ بلوچستان سربراہی کریں گے۔‘انہوں نے کہا کہ کمیشن میں دو اسمبلی ممبران، دو سرکاری افسران ، ڈی آئی جی سطح کا پولیس افسر اور شہدا کمیٹی کے دو نمائندے ہوں گے۔ کمیٹی کا ہر مہینے اجلاس ہوگا۔
علی زیدی نے کہا کہ وزیراعظم بتا چکے ہیں ملک میں بیرونی قوتیں مذہبی فسادات کرانا چاہتی ہیں۔ ’کئی فسادات ہم نے رکوا دیے ہیں۔ حکومت نہیں چاہتی کہ ایسے واقعات ہوں۔ مانیٹرنگ بہتر کرکے ایسے واقعات کو روکا جاسکتا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ہزارہ برادری کے شناختی اور پاسپورٹ سے متعلق مسائل کے حل کے لیے بھی کمیٹی بنادی گئی ہے جس میں نادرا کے علاوہ شہداء کمیٹی کے دو ممبران بھی شامل ہوں گے۔ شہداء کے شرعی وارث کو نوکریاں دیں گی۔ علی زیدی نے کہا کہ وہ اپنی وزارت کی طرف سے شہداء کے بچوں کو سکالر شپ بھی دیں گے۔
دھرنا کمیٹی کے فوکل پرسن مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ کے جنرل سیکریٹری ارباب لیاقت علی کا کہنا تھا کہ ہمارے سارے مطالبات مان لئے گئے ہیں۔ معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں۔ مقتول کان کنوں کے لواحقین نے اپنے پیاروں کی میتوں کی تدفین کا فیصلہ کرلیا ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے جام کمال نے کہا کہ وہ شکرگزار ہیں کہ لواحقین نے میتوں کی تدفین کا فیصلہ کیا ہے۔وزیراعلی نے بتایا کہ وزیراعظم اور آرمی چیف بھی بلوچستان آئیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اسے دھرنا نہیں کہیں گے کیونکہ ہزارہ برادری نے اپنے جذبات کا اظہار ایک مثالی طریقے سے کیا ہے۔
اس سے قبل جمعے کی صبح پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اگر ہزارہ برادری مچھ میں قتل ہونے والے اپنے 11 افراد کی تدفین کر دیں تو وہ آج ہی کوئٹہ جائیں گے مگر ’بلیک میلنگ‘ میں نہیں آئیں گے۔اسلام آباد میں سپیشل ٹیکنالوجی زونز اتھارٹی کے قیام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ مچھ واقعے کے بعد انھوں نے فوراً وزیرِ داخلہ کو اور پھر دو وفاقی وزرا کو یہ بتانے کے لیے لواحقین کے پاس کوئٹہ بھیجا کہ حکومت پوری طرح ان کے ساتھ کھڑی ہے۔وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا ’میں نے انھیں یقین دلایا کہ ہم لواحقین کا پوری طرح ان کا خیال رکھیں گے کیونکہ ان کے کمانے والے ہلاک ہوئے ہیں اور انھیں معاوضہ دیں گے۔‘انھوں نے کہا کہ ’کل تک حکومت لواحقین کے سارے مطالبات مان چکی ہے، اب ان کا مطالبہ ہے کہ وزیرِاعظم آئیں تو دفنائیں گے۔‘انھوں نے کہا ’ہم نے انھیں یہ پیغام پہنچایا ہے کہ جب آپ کے سارے مطالبات مان لیے ہیں، تو یہ مطالبہ کرنا کہ ہم وزیرِ اعظم کے نہ آنے تک نہیں دفنائیں گے، تو کسی بھی ملک کے وزیرِ اعظم کو اس طرح بلیک میل نہیں کرتے۔‘انھوں نے کہا کہ اس طرح ہوا تو کل کو ہر کوئی ملک کے وزیرِ اعظم کو بلیک میل کرے گا جس میں ان کے مطابق سب سے پہلے ملک کی اپوزیشن جماعتیں ہوں گی۔’میں نے انھیں کہا ہے کہ جیسے ہی آپ انھیں دفنائیں گے تو میں کوئٹہ آؤں گا اور لواحقین سے ملوں گا۔ آج اس پلیٹ فارم سے دوبارہ کہہ رہا ہوں کہ اگر آپ آج دفنائیں گے تو میں آج کوئٹہ جاؤں گا۔‘عمران خان نے کہا کہ یہ مطالبہ ناقابلِ فہم ہے کہ وزیرِاعظم آئے گا تو دفنائیں گے۔
اگرچہ وزیر اعظم نے ہزارہ برادری کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ وہ کئی سانحات کے بعد ان کے پاس گئے بھی ہیں اور انھوں نے ان کا خوف بھی دیکھا ہوا ہے۔وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں پر شاید سب سے زیادہ ظلم ہوا ہے، ان کو ٹارگٹ کیا گیا اور خاص طور پر 11 ستمبر کے بعد ان پر جس طرح ظلم کیا گیا، انھیں قتل کیا گیا، کسی اور کمیونٹی پر اس طرح کا ظلم نہیں ہوا۔‘انھوں نے اس واقعے کو انڈیا کی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سازش کے تحت ملک میں اہلِسنت اور اہلِ تشیع علما کو قتل کر کے ملک میں انتشار پھیلانے کا منصوبہ تھا، جس سے ان کے مطابق وہ مارچ میں ہی اپنی کابینہ کو خبردار کر چکے تھے۔انھوں نے کہا کہ وہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جنھوں نے چار بڑے واقعات روکے مگر اس کے باوجود ایک بڑے سنی عالم کا کراچی میں قتل کیا گیا اور حکومت نے بڑی مشکل سے یہ فرقہ وارانہ تفریق کی آگ بجھائی۔
پاکستان مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز نے وزیراعظم عمران خان کے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’وزیراعظم کا رویہ فرعونیت ہے اور وہ متاثرین سے ضد لگائے بیٹھے ہیں۔‘کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران مریم نواز نے کہا کہ ’وزیرا عظم عمران خان کا بیان انسانیت سے عاری ہے اور ان کی انا انھیں متاثرین کے پاس جانے سے روک رہی ہے۔‘مریم نواز نے یہ بھی کہا کہ متاثرین کے پاس جانا وزیراعظم کی ذمہ داری نہیں بلکہ فرض تھا۔انھوں نے کہا ’وزیراعظم کے پاس کتوں سے کھیلنےاور ڈرامے دیکھنے کا وقت ہے، جس انسان سے ہزارہ برادری امید لگائے بیٹھی ہے اس کے سینے میں دل نہیں۔‘اپنی پریس کانفرنس میں مریم نواز نے ہزارہ برادری سے درخواست کی کہ وہ اپنے پیاروں کی میتوں کو دفنا دیں۔
دوسری جانب وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے چند مہینوں میں چار ایسے گروہ پکڑے ہیں جو شیعہ سنی فساد کروانے کے لیے دونوں مسالک کے علما کو قتل کرنا چاہتے تھے۔’میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس المناک واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، ان کے سارے مطالبے منظور کر کے میں نے وزیرِ اعظم کو رپورٹ جمع کروا دی تھی۔‘شیخ رشید نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ ’افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگ سمجھ نہیں رہے کہ سیاست کے لیے بڑا وقت پڑا ہے۔‘’آج ہمیں امید ہے کہ علما کرام، ان کے قبائلی افراد ان سے بات چیت کر رہے ہیں، جیسے یہ ’مسئلہ‘ طے ہو گیا وہ یہاں سے کوئٹہ کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔‘شیخ رشید نے کہا کہ عمران خان ہزارہ قبیلے سے ایک خاص ہمدردی رکھتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ عمران خان کے کوئٹہ جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے تاہم وہ چاہتے ہیں کہ جب وہ جائیں تو تدفین ہوچکی ہو تاکہ تمام باتیں تفصیل اور خوشدلی کے ساتھ مثبت طریقے کے ساتھ ہوں اور فیصلہ کُن اقدامات کیے جا سکیں۔انھوں نے کہا کہ انھوں نے ایف سی کو پہلے ہی علاقے کی بڑے پیمانے پر تلاش کے لیے حکم دیا ہے تاکہ ان مجرموں کو سزا دی جا سکے جنھوں نے کان کنوں کو اور پاکستانی فوج کے اہلکاروں کو چند عرصہ قبل ہلاک کیا۔انھوں نے کہا کہ اگر آج تدفین ہو جائے تو عمران خان آج شام کو ہی کوئٹہ جا سکتے ہیں۔
ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ میتوں کو احترام کے لحاظ میں دیکھنا چاہیے اور ان کی تدفین کر دینی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے اس حوالے سے تمام علما کرام، سکالرز اور مجلس وحدت المسلمین سے تعاون مانگا ہے۔انھوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشتگردی کی نئی لہر موجود ہے اور اسلام آباد، لاہور، پشاور، اور کوئٹہ میں ہائی الرٹ ہے۔ انھوں نے کہا کہ پڑوسی ممالک سے ’را‘ کے ایجنٹ اور ان کے پے رول پر کام کرنے والوں کی طرف سے خطرات ہیں اور 20 مذہبی اور سیاسی افراد کی جانوں کو خطرہ ہے اور انھیں مطلع کر دیا گیا ہے۔
شیخ رشید نے کہا کہ مظاہرین کے تمام مطالبات مان لیے گئے ہیں، ڈی سی اور ڈی پی او کو معطل کر دیا گیا ہے مگر ان کا بلوچستان حکومت کے خاتمے کا مطالبہ ان کی وزارت کے دائرہ اختیار میں نہیں۔شیخ رشید نے کہا کہ تدفین کے عمل میں ہی وزیرِاعظم وہاں موجود ہوں گے لیکن کچھ لوگ اس معاملے پر سیاست کر رہے ہیں۔وفاقی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ ’عمران خان کے وہاں جانے میں تاخیر کی ایک وجہ یہ ہے کہ (حکومت کے پاس) بہت ساری ایسی معلومات ہیں جو ان کے مطابق عوام کے سامنے نہیں لائی جا سکتیں۔
شیخ رشید نے کہا کہ دھرنے کے مقام پر اگر وزیرِ اعظم وہاں گئے اور لوگوں کے مجمعے کو وزیرِ اعظم کی سکیورٹی کی وجہ سے دور کیا گیا تو بدمزگی پیدا ہو سکتی ہے، اس لیے ’بہتر طریقے اور سلیقے سے جانا بھی‘ ہماری جستجو ہے۔وفاقی وزیرِ داخلہ نے عمران خان کے ہزارہ برادری کو بلیک میلر قرار دینے کے بیان سے متعلق سوال کو ہنس کر ٹالتے ہوئے کہا کہ ’چھوڑیں، یہ ایسے ہی باتیں ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ بطور وزیرِ داخلہ وہ تصدیق نہیں کر سکتے کہ اس میں کون سا گروہ ملوث ہے مگر حکومت بہت وسیع پیمانے پر اس علاقے میں چھان بین کر رہی ہے۔
مچھ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کان کنوں کے قتل کے خلاف احتجاجی دھرنا کوئٹہ کے مغربی بائی پاس کے علاقے میں جاری ہے اور آج اس دھرنے کو چھٹا دن ہو چکا ہے۔ شدید سردی کے باوجود شرکا کی تعداد میں کمی نہیں آئی ہے اور مردوں کے ساتھ خواتین بھی اپنے بچوں سمیت بڑی تعداد میں دھرنے میں شریک ہیں۔
آج جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق نے کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا جہاں انھوں نے وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا یہ بیان ان کی ’منفی سوچ‘ کا عکاس ہے کہ انھیں بلیک میل کیا جا رہا ہے۔انھوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ واقعی وزیرِاعظم ہیں تو آپ کو آنا چاہیے،اور اگر آپ نہیں ہیں تو آپ سے کوئی گلہ نہیں ہے۔‘سراج الحق نے کہا کہ جتنی دیر تک عمران خان نہیں آئیں گے، تب تک ان لاشوں کو نہ دفنانے کی وجہ لواحقین نہیں بلکہ وزیرِ اعظم کی ’انا اور غرور‘ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button