آرمی چیف اور محمد زبیر کی ملاقات پبلک کیوں کی گئی؟


فوجی ترجمان کی جانب سے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور نون لیگ کے سینئر رہنما محمد زبیر کے مابین دو حالیہ ملاقاتوں کے اعتراف نے فوجی قیادت کے اس دعوے کی مکمل نفی کر دی ہے کہ اس کا ملکی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں اور وہ سیاست سے دور رہنا چاہتی ہے۔ یاد رہے کہ راولپنڈی میں 16 ستمبر کو اپوزیشن کے پارلیمانی رہنماؤں سے ایک ملاقات کے دوران آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور آئی ایس آئی چیف فیض حمید نے یہ ناقابل یقین دعویٰ کیا تھا کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور اپوزیشن جماعتیں اسے سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش نہ کریں۔
تاہم 20 ستمبر کو اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں فوج کا یہ مشورہ نظر انداز کر دیا گیا اور کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں باقاعدہ طور پر یہ مطالبہ شامل کر دیا گیا کہ پاک فوج سیاست میں مداخلت سے باز آجائے کیونکہ اس سے ادارے اور ملک دونوں کا نقصان ہوتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے اس مطالبے کے ردعمل میں عسکری طاقتوں کے غیر سرکاری ماوتھ پیس شیخ رشید احمد نے نون لیگ کے دو مرکزی رہنماوں کی فوجی قیادت سے ایک خفیہ ملاقات کا دعوی کر دیا۔ مقصد یہ تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کی حکومت مخالف کامیاب آل پارٹیز کانفرنس کو سبوتاژ کیا جا سکے تاکہ حکومت مخالف اتحاد اکٹھا ہونے سے پہلے ہی بکھر جائے۔ اسی دوران سینئر صحافی طلعت حسین نے 22 ستمبر کو اس خبر کی تصدیق کر دی کہ نواز شریف کے ایک نمائندے نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے خفیہ ملاقات کی ہے۔
یہ خبر مارکیٹ ہونے کے 24 گھنٹے بعد 23 ستمبر کی شام کو پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل افتخار بابر نے اے آر وائے چینل پر یہ انکشاف کیا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سندھ کے سابق گورنر محمد زبیر نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کے حوالے سے دو ملاقاتیں کی تھیں۔ عمومی تاثر یہی ہے کہ شیخ رشید کے بعد بابر افتخار کی جانب سے اس ملاقات کی تصدیق کیے جانے کا بنیادی مقصد نون لیگی قیادت کو گندا کرنا اور اپوزیشن کی قیادت کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنا تھا۔ تاہم حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج کو یہ وضاحت وزیر اعظم عمران خان کی وجہ سے کرنا پڑی جنہیں کہ زبیر کے ساتھ چیف کی خفیہ ملاقاتوں کا علم نہیں تھا۔ لہذا ضروری تھا کہ چیف اور کپتان کے مابین اس معاملے پر کوئی غلط فہمی پیدا ہونے سے پہلے ہی وضاحت کردی جائے۔
تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فوجی قیادت کے اپنے دعوے کے مطابق اس کی ملکی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں تو پھر آرمی چیف نے محمد زبیر سے دو ہفتوں میں دو خفیہ ملاقاتیں کیوں کیں؟ جنرل محمد عمر کے بیٹے اور اسد عمر کے بھائی محمد زبیر کا کہنا ہے کہ ان کے جنرل باجوہ سے پرانے تعلقات ہیں اور ان سے حالیہ ملاقاتیں انہوں نے نہ تو نواز شریف یا مریم کے کہنے پر کیں اور نہ ہی ان دونوں کے لئے انہوں نے کسی قسم کی کوئی رعایت مانگی۔ دوسری طرف فوجی ترجمان بابر افتخار نے یہ دعوی کیا ہے کہ آرمی چیف سے ملاقات کے دوران محمد زبیر نے نواز شریف اور مریم نواز کی بات کی جس کے جواب میں جنرل باجوہ نے انہیں کہا کہ تمام معاملات عدالتوں میں حل ہونے والے ہیں اور وہیں پر ان کا فیصلہ ہوگا۔
ابھی اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ مخالف دھواں دھار تقریر کی گرد بھی نہیں بیٹھی تھی کہ مارکیٹ میں آرمی چیف اور محمد زبیر کی خفیہ ملاقاتوں کی خبر آ گئی جس کے بعد سے اب یہ بحث شروع ہے کہ اگر سیاستدان خود ہی فوج کو سیاست میں گھسیٹنے سے باز نہیں آئیں گے اور اپنے مسائل لے کر آرمی چیف کے پاس پہنچ جائیں گے تو پھر فوج سیاست سے دور کیسے رہے گی؟ تاہم اپوزیشن کے حلقوں کا کہنا ہے کہ آرمی چیف اور زبیر کی ملاقات کی خبر کو اس لیے کیا گیا کہ نون لیگ کو گندا کیا جا سکے اور آل پارٹیز کانفرنس میں ملکی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے جو کچھ کہا گیا اس کے اثرات کو زائل کیا جا سکے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر آرمی چیف جنرل باجوہ نے محمد زبیر کو قانونی معاملات عدالتوں میں اور سیاسی معاملات پارلیمان میں حل کروانے کا ہی مشورہ دینا تھا تو پھر ان سے دوسری ملاقات کی نوبت کیوں پیش آئی اور وہ بھی ایک ہی ہفتے بعد۔ ناقدین کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر فوجی قیادت واقعی سیاست سے دور رہنا چاہتی ہے تو پھر آرمی چیف نے محمد زبیر کے ساتھ ملاقات پر ہی کیوں کی۔
اس وقت پاکستان کے سوشل میڈیا اور نیوز چینلز پر نظر دوڑائی جائے تو جو ٹرینڈز دکھائی دے رہے ہیں وہ ملک میں جاری سیاسی کشمکش کا حال بخوبی سنا رہے ہیں۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کی جانب سے آرمی چیف اور محمد زبیر کی دو ملاقاتوں کے انکشاف کے بعد سے نیوز چینلز اور سوشل میڈیا طرح طرح کے سوالوں اور قیاس آرائیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ محمد زبیر اگست کے آخری ہفتے اور پھر رواں ماہ کی سات تاریخ کو جنرل باجوہ سے ملے تھے۔ سوشل میڈیا ناقدین کا کہنا ہے کہ یقینا محمد زبیر کے ذریعے کوئی پیغام رسانی چل رہی تھی جو آرمی چیف کو ایک ملاقات کے بعد دوسری بھی کرنا پڑی۔ ان خدشات کو یوں تقویت ملتی ہے کہ چیف کی زبیر سے پہلی ملاقات میں آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی شامل تھے۔
تاہم دوسری طرف محمد زبیر نے فوجی ترجمان کے اس دعوے کی تردید کی ہے کہ ان کی ملاقاتوں کا مقصد نواز شریف یا مریم کے لیے کسی ریلیف کے بارے میں بات کرنا تھا یا وہ جنرل باجوہ سے میاں صاحب کے نمائندے کے طور پر ملے تھے۔ زبیر کا کہنا تھا کہ ان کے جنرل باجوہ سے 40 برس پرانے تعلقات ہیں۔ ان کی آرمی چیف سے پہلی ملاقات چار گھنٹے طویل تھی۔ تاہم انھوں نے میجر جنرل بابر افتخار کے اس مؤقف کی تردید کی کہ اس ملاقات میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے ایک مرتبہ بھی عسکری قیادت سے اپنی قیادت کے لیے ریلیف نہیں مانگا نہ انھوں نے ان کو یہ کہا کہ انھیں نواز شریف، مریم یا شہباز شریف نے بھیجا ہے۔ زبیر نے کہا کہ ان کی آرمی چیف سے ملاقات کا پہلا جملہ یہ تھا کہ ‘نہ میں اپنے لیے ریلیف لینے آیا ہوں، نہ پارٹی کے لیے ریلیف لینے آیا ہوں، نہ نواز شریف کے لیے نہ مریم کے لیے۔’ زبیر نے مزید کہا کہ ان کی آرمی چیف سے ملاقات کے دوران ڈیڑھ گھنٹہ معیشت پر بات ہوئی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کے حوالے سے زبیر نے کہا کہ انھیں نہیں معلوم کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کیوں یہ بات کہی ہے۔ ‘یہ طے نہیں ہوا تھا کہ یہ خفیہ ہے لیکن یہ تشہیر کرنے کی بھی ضرورت نہیں تھی اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ آئی ایس پی آر کو اس ملاقات کے بارے میں بتانے کی ضرورت کیوں پڑی۔ تاہم کامن سینس یہ بتاتی ہے کہ آئی ایس پی آر کے سربراہ نے جو کچھ بھی کہا وہ آرمی چیف کے کہنے پر کہا۔ تو کیا اس انکشاف کا مقصد اپوزیشن اتحاد میں دراڑیں ڈالنا تھا یا آرمی چیف سرکاری طور پر وزیراعظم کو اپنی خفیہ ملاقاتوں کے بارے وضاحت دینا چاہتے تھے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حزب مخالف کی جماعتوں کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس کے دوران جو سخت موقف نواز شریف نے اختیار کیا گیا، شاید وہ وہ جنرل باجوہ اور محمد زبیر کی ناکام ملاقاتوں کا ردعمل تھا۔ یاد رہے کہ سینر صحافی طلعت حسین کے دعوے کے مطابق ملاقات کے دوران آرمی چیف نے محمد زبیر کی جانب سے نون لیگی قیادت کے ساتھ زیادتیوں کے جواب میں سخت گیر رویہ اپنائے رکھا اور یہ بھی کہا گیا کہ اگر کسی نے موجودہ سیاسی نظام کے خلاف کوئی تحریک چلانے کی کوشش کی تو مال روڈ پر دو لوگ بھی اکٹھے نہیں ہونے دیے جائیں گے۔ دوسری طرف حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ آئی ایس پی آر کے بیان سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ پی ایم ایل این کوئی این آر او چاہتی تھی لیکن ان کی درخواست رد کر دی گئی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آرمی چیف اور زبیر کی خفیہ ملاقات کے انکشاف نے تو اپوزیشن کی اے پی سی اور پی ایم ایل این دونوں کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن دوسری طرف اس ملاقات کے سرکاری طور پر انکشاف نے اس فوجی قیادت کے کی ساکھ اور امیج کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے جس نے صرف چند روز پہلے ہی یہ دعوی کیا تھا کہ ان کا ملکی سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور انہیں خوامخواہ سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button