پنجاب کی وزارت اعلی عمران کے گلے کی ہڈی بن گئی


جہاں ایک طرف وزیراعظم عمران خان کو اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کا چیلنج درپیش ہے وہیں دوسری جانب پنجاب میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف اندرونی بغاوت اور ق لیگ کی وزارت اعلیٰ کی ڈیمانڈ نے انہیں چکرا کر رکھ دیا ہے۔ اسوقت اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم کو اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے پنجاب میں عثمان بزدار کی چھٹی کروا دینی چاہیے یا عدم اعتماد کا نتیجہ نکلنے کے بعد پنجاب میں تبدیلی لانی چاہیے۔ کپتان کو پارٹی کے ایک دھڑے نے مشورہ دیا ہے کہ وہ عثمان بزدار کی قربانی دے کر اپنی کرسی بچا سکتے ہیں لیکن دوسری دھڑے کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے انہیں فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہوگا کیونکہ اس طرح جماعت میں تقسیم مزید بڑھے گی اور منتخب اراکین بزدار کا انجام دیکھ کر کپتان کو چھوڑ جائیں گے۔ تاہم فواد چوہدری سمیت دیگر تگڑے حکومتی وزرا سمجھتے ہیں کہ بزدار کو فارغ کرکے مرکز میں تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ قاف لیگ کی قیادت بھی عمران خان کو یہی مشورہ دے رہی ہے کہ بزدار کی جگہ ان کو حکومت دے دی جائے تاکہ وہ معاملات سنبھال لیں اور عدم اعتماد میں ان کے ساتھ کھڑا ہونے کے قابل ہو جائیں۔ لہٰذا کپتان پر قاف لیگ کی جانب سے بزدار کو فارغ کرنے کے لیے دباؤ برقرار بڑھتا جا رہا ہے۔
قاف لیگ کی قیادت نے بڑے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ اپوزیشن اتحاد نے چوہدری پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کی پیشکش کر رکھی ہے لہذا اگر عمران بزدار کو فارغ کرکے ق لیگ کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ سونپ دیں تو مرکز میں بھی ان کا ساتھ دینے کا حتمی فیصلہ ہوسکتا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو ق لیگ عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے پنجاب میں وزارت اعلیٰ مانگ رہی ہے اور دوسری طرف ترین گروپ اور علیم خان کا دھڑا چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ ایسے میں دیکھنا یہ ہے کہ کپتان قاف لیگ کو ناراض کر کے مرکز میں پانچ ووٹ اپوزیشن کی جھولی میں ڈالنے کا رسک لیتے ہیں یا تحریک انصاف کے دھڑوں کو نظر انداز کرکے ق لیگ کی حمایت سمیٹنے کے لیے بزدار کی قربانی کا فیصلہ کرتے ہیں؟
واضح رہے کہ حکومت کی اہم ترین اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) نے عمران خان سے مطالبہ کر دیا ہے کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے لیے ووٹنگ سے قبل وہ عثمان بزدار کی جگہ چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کا اعلان کریں۔ مسلم لیگ (ق) نے وزیر اعظم کو پیغام بھجوایا ہے کہ فوری طور پر چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کا اعلان کردیں جس سے ترین گروپ کی بغاوت کی صورت میں پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت بچانے میں مدد ملے گی۔
مسلم لیگ (ق) کا کہنا ہے کہ ایسا ہو جائے تو وہ وزیر اعظم کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے مرکز میں اپوزیشن کی عدم اعتماد کو ناکام بنانے کی کوشش کرے گی۔ مسلم لیگ (ق) کو پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ وہ ایک بار مشترکہ اپوزیشن کی عدم اعتماد کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوجائے تو پرویز الٰہی کو پنجاب کے سب سے بڑے عہدے پر فائز کر دیں گے۔ تاہم ماضی کے تجربے کو لے کر مسلم لیگ (ق) کو کپتان کے وعدے پر یقین نہیں ہے۔ قاف لیگ کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی پی ٹی آئی کی قیادت چوہدریوں کے ساتھ کیے گئے کئی وعدوں سے بھاگ چکی ہے۔ یاد رہے کہ اقتدار کے پہلے تین برسوں میں مسلم لیگ (ق) کے ساتھ تحریری معاہدے کے باوجود پی ٹی آئی نے مونس الٰہی کو وفاقی وزیر بنانے کا وعدہ پورا نہیں کیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر وزیر اعظم بروقت پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب نامزد کرنے کا فیصلہ نہیں کرتے تو مسلم لیگ (ق) کے پاس دیگر آپشنز بھی موجود ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اپوزیشن اتحاد نے مرکز میں کپتان مخالف تحریک عدم اعتماد میں ساتھ دینے کے عوض چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کی آفر کر رکھی ہے۔ لیکن کپتان اینڈ کمپنی کو صرف قاف لیگ کے چیلنج کا ہی سامنا نہیں بلکہ پنجاب اسمبلی کے درجنوں اراکین کے حمایت یافتہ دو باغی گروپ بھی وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ہٹانا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے بلوچستان عوامی پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ مذاکرات آخری مراحل میں داخل ہو چکے ہیں۔ اسکے علاوہ اپوزیشن قیادت کے چوہدری برادران سے بھی مسلسل رابطے ہیں جن کا نتیجہ کسی بھی وقت سامنے آ سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو عمران خان کا دھڑن تختہ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

Related Articles

Back to top button