گوجرانوالہ جلسہ ناکام بنانے کے لئے 200 پولیس افسران کے تبادلے


16 اکتوبر کو گوجرانوالہ میں ن لیگ کے زیر اہتمام اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے پہلے جلسے کو قابو کرنے کے لیے حکومت نے پنجاب میں 200 کے قریب پولیس افسران اور اہلکاروں کے تبادلے کر دیئے ہیں اور خصوصی طور پر فوج کے کوٹے سے پولیس میں آنے والے اور ماضی میں کھڈے لائن لگائے گئے افسران کو چن چن کر گوجرانوالہ میں تعینات کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح شریفوں کی گڈ بکس میں شمار ہونے والے پولیس افسران کو صوبہ بدر کر دیا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس حکمتِ عملی کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہے کہ لاہور سے مریم نواز کی قیادت میں گوجرانوالہ کے لئے نکلنے والے قافلے کو بڑے جلوس کی صورت اختیار نہ کرنے دی جائے۔ حکومت کو خدشہ ہے کہ گوجرانوالا جلسے میں شرکت کے لئے نکلنے والا قافلہ بہت بڑا ہو گا اور ممکنہ طور پر یہ ایک سے دو دن میں لاہور سے گوجرانوالا پہنچے گا۔ ایسے میں اگر گوجرانوالہ میں موجود ہجوم اور لاہور سے نکلنے والا قافلہ ایک ہوگیا تو پنجاب حکومت کے لئے اس کنٹرول کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ لہذا اپوزیشن کو جلسوں کی اجازت دینے کے حکومتی اعلان کے باوجود حکومت کی کوشش ہوگی کہ جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کرے اس قافلے کو محدود اور سست کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے سی سی پی او لاہور عمر شیخ اور حال ہی میں تعینات ہونے والے سی پی او گوجرانوالہ سرفراز احمد فلکی مل کر حکومتی پالیسی کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ پولیس اورسول انتظامیہ کے ذریعے پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک کو شروع سے ہی دبا دیا جائے تاکہ تحریک کا ٹیمپو نہ بن سکے۔ بصورت دیگر گوجرانوالہ میں کامیاب شو کے ذریعے اپوزیشن اتحاد حکومت کے لئے شدید مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ یاد رہے کہ مریم نواز نے پہلے ہی یہ اعلان کر دیا ہے کہ کپتان حکومت جنوری کے آغاز سے پہلے ہی ختم ہو جائے گی۔ان حالات میں حکومت بھی جانتی ہے کہ پی ڈی ایم کا پہلا جلسہ ہی اسکی تحریک کی کامیابی یا ناکامی کا تاثر قائم کرے گا لہذا تمام تر کوشش کی جائے گی کہ اس کو ایک فلاپ سو ثابت کیا جائے۔
حکومتی حکمت عملی کے تحت گوجرانوالہ میں پولیس کو مکمل طور پر سیاسی بنا دیاگیا ہے اور کوشش کی جا رہی ہےکہ بابر سعید کی جگہ لینے والے نئے سٹی پولیس آفیسر سرفراز فلکی کی سربراہی میں گوجروانوالا پولیس ن لیگ کو ٹف ٹائم دے اور پہلا ہی جلسہ ناکام ہوجائے۔ گوجرانوالہ کے ایس ایس پی آپریشنز ڈاکٹر فہد احمد کو بھی اسی بنیاد پر تبدیل کیا گیا ہے۔ یوں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ملک بھر میں احتجاج کے اعلان کے بعد پنجاب حکومت نے اب تک صوبے میں 200 سے زائد پولیس افسران کے تبادلے کیے ہیں۔ پنجاب پولیس کے سربراہ انعام غنی نے حالیہ دنوں 6 ڈی آئی جیز اور 68 ڈی ایس پیز کے تبادلے کیے اور گوجرانوالہ میں سی پی او سرفراز فلکی کو خصوصی ذمہ داری کے ساتھ تعینات کیا گیا ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق سرفراز احمد فلکی کے لیے یہ جلسہ ایک بڑا ٹیسٹ کیس ہوگا کیوں کہ سی پی او گوجرانولا کے منصب پر ان کی تعیناتی کا ایک بڑا مقصد اپوزیشن کے سو کا ناکام کرنا بھی یے۔ خیال رہے کہ سرفراز احمد فلکی ڈی آئی جیز رینک کے ان 6 افسران میں شامل ہیں جن کی خدمات پنجاب حکومت کو 7 اکتوبر کو دی گئی ہیں۔ پنجاب حکومت کی جانب سے پولیس میں ان تبادلوں سے یہ تاثر گہرا ہورہا ہے کہ حکومت مسلم لیگ (ن) کے دور میں دوسرے صوبوں میں بھیجے گئے افسران کو واپس لارہی ہے اور انہیں پی ڈی ایم کا احتجاج کو ناکام بنانے کی ذمہ داری تفویض کر رہی ہے۔ اس سے پہلے حکومت نے 6 اکتوبر کو پنجاب کے 9 سینیئر پولیس افسران کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لیے نرم گوشہ رکھنے کے شبہے میں تبدیل کردیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت پولیس اور سول انتظامیہ کے ذریعے پی ڈی ایم کے جلسے کو قابو کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا ناکام۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button