الیکشن سے پہلے  9 مئی کے ملزمان کی ٹھکائی کا فیصلہ؟

ملک بھر میں عام انتخابات کے انعقاد میں ایک ماہ سے کم عرصہ باقی ہے جبکہ ملک کی سابقہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کی مشکلات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافی دیکھنے میں آ رہا ہے کیونکہ ملکی سیاسی تاریخ میں سابق چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری اور اس کے بعد پارٹی ورکروں کے ملک بھر میں پرتشدد مظاہروں کے حوالے سے 9 مئی کا دن غیر معمولی واقعات کے دن کے طور جانا جاتا ہے۔ان واقعات کے نتیجے میں تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد مقدمات کا سامنا کر رہی ہے۔کچھ ایسے رہنما اور کارکن بھی ہیں جو ابھی تک پولیس کو مطلوب ہیں۔ ملک میں انتخابی عمل شروع ہوتے ہی کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے لیے نکلنے والے کئی رہنماؤں اور کارکنوں کو پولیس نے ریٹرننگ افسران کے دفاتر کے اندر اور باہر سے بھی گرفتار کیا۔ایسے میں ایسی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ صوبہ پنجاب کی پولیس ایسی مربوط حکمت عملی بنا رہی ہے کہ انتخابی مہم کے لیے نکلنے والے ایسے رہنماوں اور کارکنوں کو گرفتار کیا جائے جو 9 مئی کے مقدمات میں مطلوب ہیں۔اس حوالے سے پولیس نے 9 مئی کے اشتہاری اور دیگر ملزمان کے خلاف غیر اعلانیہ کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا ہے۔

پولیس کی آپریشنز اور انویسٹی گیشن ونگز کی ٹیموں کو گرفتاریوں کے ٹاسک سونپ دیے گئے ہیں۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق 9 مئی کے واقعات پر پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں دہشت گردی کے 14 مقدمات جبکہ اور 49 مقدمات دیگر سنگین دفعات کے تحت درج ہوئے تھے۔جبکہ لاہور پولیس نے 1035 ملزمان دہشت گردی کے مقدمات اور884 ملزمان دیگر مقدمات میں گرفتار کیے، جن میں سے کئی ضمانتیں منظور ہونے کے بعد باہر آ چکے ہیں۔ پولیس ڈیٹا کے مطابق دہشت گردی کے مقدمات میں جیلوں میں اب 741 ملزمان ہیں۔جبکہ دیگر مقدمات میں 318 ملزمان کو جوڈیشل حوالات میں رکھا گیا ہے۔ باقی تمام ملزمان ضمانتوں پر ہیں یا ان کے خلاف مقدمات ڈسچارج کر دیے گئے ہیں۔

اسی طرح 104 ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں چلایا جا رہا ہے۔ پولیس کے مطابق ایسے افراد جو ابھی تک گرفتار نہیں ہو سکے اور عدالتیں ان کو اشتہاری قرار دے چکی ہے ان کی تعداد 342 ہے۔ ان میں حماد اظہر، میاں اسلم، مراد سعید اور زبیر نیازی سمیت 22 رہنما بھی شامل ہیں۔

تحریک انصاف کا الزام ہے کہ 9 مئی مقدمات کی آڑ میں پولیس انتخابی مہم کو نشانہ بنا رہی ہے

کیا تحریک انصاف کے کارکنان کو 9 مئی کی آڑ میں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ اس سے متعلق ڈی آئی جی انوسیٹیگیشن لاہور عمران کشور کا کہنا ہے کہ ’پولیس صرف اور صرف عدالتی احکامات پر عمل کر رہی ہے۔ اشتہاری ملزمان کے خلاف کارروائیاں سارا سال ہی جاری رہتی ہے۔ کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔ پولیس صرف قانون پر عمل درآمد کر رہی ہے۔‘

دوسری جانب مبصرین کے مطابق تیسری دنیا کے ملکوں میں کبھی ایک سیاسی جماعت، کبھی دوسری پارٹی اور کبھی تمام سیاستدانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وطن عزیز میں بھی سیاسی پارٹیاں پابندی کی شکار ہونے سمیت مختلف النوع مسائل سے دوچار ہوتی رہی ہیں۔ تاہم تحریک انصاف کے کھاتے میں تو کئی ایسی بے احتیاطیاں، غلطیاں شامک ہیں جو اس کی مشکلات کا سبب بنیں۔ 9مئی کو جو کچھ ہوا، اسے آسانی سے نظرانداز کرنا ممکن تھا نہ شاید آگے چل کر ہو جبکہ انٹرا پارٹی الیکشن جس انداز میں کرائے گئے اس کے سخت ناقدین خود کو پارٹی کا بنیادی رکن کہلوانے والوں میں سے نکل آئے اور الیکشن کمیشن نے اس الیکشن کو خود پارٹی کے بنائے قواعد کے منافی قرار دیا۔ بانی پی ٹی آئی کے جیل میں ہونے کے باعث ایک طرف پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم پر داخلی تنازع ہے اور امیدواروں کی فہرست کو حتمی شکل نہ دی جاسکی۔ دوسری جانب منگل تک پی ٹی آئی کا نام ان 145جماعتوں میں شامل نہیں تھا جن کے انتخابی نشانات کی فہرست الیکشن کمیشن سے ریٹرننگ افسروں کو بھیجے گئے ایک مراسلے کا حصہ ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کئے گئے مراسلے میں 12سے زیادہ سیاسی جماعتوں کے نام انتخابی نشانات والی پارٹیوں کی حیثیت سے موجود نہیں۔ ریٹرننگ آفیسرز کمیشن کی طرف سے دیئے گئے انتخابی نشان 13جنوری کو الاٹ کریں گے۔ مراسلے میں الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے نامزد امیدواروں کو متعلقہ انتخابی نشان الاٹ کیا جائے، سیاسی جماعتوں کے انتخابی نشانات کسی آزاد امیدوار کو نہ دیئے جائیں۔ ایک طرف یہ منظرنامہ ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے اسیر بانی چیئرمین کو راولپنڈی پولیس نے جی ایچ کیو پر حملے سمیت پرتشدد واقعات کے کم از کم ایک درجن کیسز میں گرفتار کرلیا ہے جبکہ اسلام آباد کی ایک احتساب عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور سابق خاتون اوّل بشریٰ بی بی پر توشہ خانہ ریفرنس میں فرد جرم عائد کی ہے۔ ملزموں نے صحت جرم سے انکار کیا ہے جبکہ 20گواہوں کی فہرست احتساب عدالت میں پیش کر دی گئی ہے۔ 190ملین ریفرنس میں 17جنوری کو فرد جرم عائد ہوگی۔ اس منظر نامے میں بانی پی ٹی آئی کو بھی چاہئے کہ ٹھنڈے دماغ سے صورتحال کا سامنا کریں۔ وہ جس کیفیت سے آج دوچار ہیں اس سے ماضی میں کئی سیاستداں دوچار ہوتے رہے ہیں۔ اس لئے اپنی پارٹی کے پرجوش کارکنوں کو ہوش سے کام لینے کی تلقین کریں ورنہ ان مشکل حالات سے ان کی جان چھوڑنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

Related Articles

Back to top button