PIA عملے کے اراکین کینیڈا میں ہی غائب کیوں ہونے لگے؟

پاکستان ائیر لائنز کے عملے کی جانب سے یورپی ممالک میں غائب ہونے کا سلسلہ کوئی نیا نہیں بلکہ سالوں سے جاری ہے، ایسا ہی ایک واقعہ ٹورانٹو میں بھی پیش آیا جب رن وے پر کھڑے پی آئی اے کے طیارے کا عملہ فلائٹ سٹیورڈ کا انتظار کر رہا تھا جوکہ منظر سے غائب تھا۔یہ 29 فروری کا سرد دن تھا اور کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کے دارالحکومت ٹورونٹو میں شدید سردی کی غیر معمولی لہر جاری تھی، پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی فلائٹ پی کے 782 ٹورونٹو پیئرسن ایئرپورٹ کے ٹرمینل نمبر تین پر موجود تھی لیکن طیارے کے عملے کے سٹیورڈ ’لاپتہ‘ تھے۔اس فلائٹ میں سٹیورڈ کی ڈیوٹی نبھانے والے جبران بلوچ اپنے رپورٹنگ ٹائم پر ہوٹل سے ایئرپورٹ روانہ نہیں ہوئے تھے اور اب تک طیارے کے کیپٹن سمیت پورے عملے کو علم ہو چکا تھا کہ اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے۔جبران گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے پی آئی اے کے ساتھ منسلک تھے لیکن یہ پی آئی اے کے عملے کا کینیڈا میں ’غائب‘ ہونے کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔ فروری کے اواخر میں ایئر ہوسٹس مریم رضا اور اس سے قبل جنوری میں فائزہ مختار بھی کینیڈا سے اپنے فلائٹ سے پاکستان واپس نہیں آئی تھیں، گزشتہ سال کے آخری دو ماہ کے دوران پی آئی اے کے فلائٹ کریو کے چار ارکان ایسے ہی غائب ہو چکے تھے۔پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران عملے کے 10 ارکان کینیڈا کی فلائٹس پر جانے کے بعد واپس نہیں آئے، ایسے واقعات اس سے قبل بھی گاہے بہ گاہے رپورٹ ہوتے رہے ہیں لیکن گزشتہ ڈیڑھ برس میں ایسے واقعات میں نمایاں تیزی دیکھنے کو ملی ہے۔بی بی سی نے پیل ریجنل پولیس سے پوچھا کہ آیا پی آئی اے کے لاپتہ ہونے والے عملے کے حوالے سے کوئی مسنگ پرسن رپورٹ درج کرائی گئی ہے۔اس پر پیل پولیس کے ترجمان رچرڈ چِن نے بی بی سی کو بذریعہ ای میل بتایا کہ ’ہم نے اپنے ایئرپورٹ ڈویژن سے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پیل ریجنل پولیس کو اس سیاق و سابق میں مسنگ پرسنز کی کوئی کال موصول نہیں ہوئی۔پی آئی اے کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ’جب بھی کوئی ساتھی غائب ہوتا ہے تو وہ اس کی بھنک بھی نہیں پڑنے دیتے۔ یہ سب کچھ بہت رازداری سے ہوتا ہے اور ان کی پہلے سے ہی وہاں موجود لوگوں سے بات چیت ہو چکی ہوتی ہے۔ایسا نہیں ہوتا کہ ایک دن اچانک کوئی عملے کا رکن یہ سوچ لے کے میں آج واپس پاکستان نہیں جاؤں گا۔کینیڈا میں مقیم امیگریشن کنسلٹنٹ عبداللہ بلال اور وکیل مہرین رضا سمجھتے ہیں کہ یہ کہانی پی آئی اے کے 10 کریو ممبرز سے زیادہ بڑی ہے، امیگریشن اینڈ ریفیوجی بورڈ کینیڈا کے اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں کینیڈین حکام کو پناہ حاصل کرنے کے لیے ریکارڈ ایک لاکھ 44 ہزار درخواستیں موصول ہوئیں جو 2022 کے مقابلے میں 57 فیصد زیادہ ہیں۔گذشتہ کئی سالوں سے کینیڈا میں امیگریشن کنسلٹنسی کے شعبے سے منسلک عبداللہ بلال کینیڈین حکومت کی جانب سے آتھرائزڈ کنسلٹنٹ ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کینیڈا کے قانون کے مطابق آپ کینیڈا میں پناہ حاصل کرنے کے لیے کسی بھی پورٹ آف انٹری پر درخواست جمع کروا سکتے ہیں، مہرین اور بلال دونوں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اکثر افراد پناہ لینے کے لیے ’جھوٹی وجوہات دیتے ہیں‘ اور اس کی وجہ سے جو لوگ واقعی پناہ لینے کے مستحق ہوتے ہیں وہ متاثر ہوتے ہیں۔اس حوالے سے دو برس قبل پی آئی اے انتظامیہ کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا تھا کہ یہ سلسلہ روکنے کے لیے بانڈ بھروانے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا تاہم اس کا کوئی اثر نہیں ہوا،ائیر پورٹ پر پاسپورٹ رکھوانے کے عمل کے بارے میں بات کرتے ہوئے مہرین رضا کا کہنا تھا کہ پاسپورٹ تو وہ پہلی چیز ہوتی ہے جو یہاں پناہ لینے کی غرض سے آنے والے تلف کرتے ہیں، اس لیے اس کا کوئی فائدہ نہیں، ’دونوں ممالک کے حکام کو اس بارے میں بات چیت کے ذریعے اس کا حل نکالنا پڑے گا۔

Related Articles

Back to top button