کیا جسٹس اعجاز الاحسن نئے چیف جسٹس کو ناکام بنا دیں گے؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صرف تیرہ ماہ پاکستان کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رھیں گے ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد سبکدوش چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے انتہائی قریبی عمرانڈو ساتھی جسٹس اعجاز الاحسن چیف جسٹس بن جائیں گے ایسے میں خیال کیا جا رھا ھے عدالت عظمیٰ میں پائی جانے والی وہ تقسیم جو جسٹس بندیال کے دور میں شروع ھوئی تھی جسٹس فائز عیسیٰ کے مختصر دور کی وجہ سے شاید ختم نہ ھو پائے ۔ اعلیٰ عدلیہ کے معاملات پر نظر رکھنے والے ماہرین اور صحافیوں کا خیال ھے کہ قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں تقسیم کے ختم ہونے یا جاری رکھنے کا انحصار بہت حد تک جسٹس اعجاز الاحسن کی ائندہ حکمت عملی اور قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ ان کے رویئے پر بھی ہوگا ، سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعدسپریم کورٹ کے موجودہ ججزمیں سے چارججزکوچیف جسٹس پاکستان بننے کاموقع ملے گا۔ان ججزمیں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل ہیں۔جسٹس سردار طارق مسعود 10 مارچ 2024 ء کومدت ملازمت پوری کرتے ہوئے ریٹائر ہوجائینگے اسلئے انکے بعد کے جج جسٹس اعجازالاحسن چیف جسٹس پاکستان کے عہدے پر براجمان ہونگے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 25 اکتوبر 2024 ء تک چیف جسٹس پاکستان رہیں گے۔ انکے بعدسنیارٹی فہرست میں ججزمیں سے دوسرے نمبر پر موجود جج جسٹس اعجاز الاحسن چیف جسٹس مقرر ہونگے ، جسٹس اعجاز الااحسن 4اگست 2025ء کو ریٹائر ہو جائینگے۔ واضح رہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور ان کے بعد آنے والے ایک اور عمران دار چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ساتھ تقریبا ہر اس بنچ کے ایک مستقل رکن تھے جس نے ہمیشہ عمرانڈو پن کا ثبوت دیا آئین اور قانون کو موم کی ناک طرح موڑا، کئی مرتبہ اپنے چہیتے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو غیر قانونی ریلیف دیا اور کئی مقدمات میں ان کے حق میں فیصلے بھی دئیے ۔ گزشتہ 7 سال میں 4 چیف جسٹسز کے ادوار میں 1957 رپورٹڈ کیسز کا جائزے سے یہ پتا چلا ہے کہ 1957 کیسز میں سے 134 اہم سیاسی کیسز میں جسٹس اعجازالاحسن سب سے زیادہ یعنی 63 کیسز کا حصہ رہے، جسٹس عمر عطاء بندیال 52 کیسز کا حصہ رہے،جسٹس منیب اختر 22 کیسز کا اور سپریم کورٹ کے سب سے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 11 کیسز کا حصہ رہے۔ اور ایک ہزار 823 غیر اہم سیاسی کیسز میں جسٹس اعجازالاحسن سب سے زیادہ 372 کیسز کا حصہ رہے، جسٹس عمر عطاء بندیال دوسرے نمبر پر یعنی 315 کیسز کا حصہ رہے، جسٹس منصور علی شاہ 302، جسٹس سردار طارق مسعود 241 کیسز اور جسٹس فائز عیسیٰ 199 کیسز کا حصہ رہے۔ یعنی گزشتہ 7 سالوں میں سپریم کورٹ کے ججز میں سے جو سب سے زیادہ اہم سیاسی کیسز کا فیصلہ کرتے آرہے ہیں اُن میں جسٹس عمر عطاء بندیال ،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر سب سے آگے ہیں جب کہ سینئر ترین ججز اس حوالے سے بہت پیچھے ہیں۔ ان ہم خیال بینچز کی طرف سے ایسے فیصلے دیے گئے جن کا وہ آگے جاکر خود بھی دفاع نہیں کرسکے ہیں۔ مثال کے طور پر، اکتوبر 2022 میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق تحریک انصاف کے رہنما فیصل واؤڈا کی تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست پر سماعت کی اور انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’تاحیات نااہلی کا آرٹیکل 62 ون ایف ڈریکونین قانون ہے،موجودہ کیس کو محتاط ہوکر سنیں گے‘۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سیاست کا راستہ مکمل طور پر روکنے کے لیے سپریم کورٹ نے اپریل 2018 کو ایک اور متنازع فیصلہ دیا اور وہ فیصلہ تھا کہ جو شخص آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل ہوا ہو اُس کی نااہلی تاحیات رہے گی جس بینچ نے یہ متنازع فیصلہ دیا اس کے اراکین میں جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عمر عطاء بندیال ، جسٹس اعجازلاحسن، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل تھے ۔. ، دسمبر 2018 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھی زلفی بخاری کی نااہلی کے حوالے سےدرخواست دائر ہوئی مگر سپریم کورٹ نے اس درخواست کو مسترد کردیا اور اس بینچ کے اراکین میں،جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجازلاحسن شامل تھے ۔

اگست 2021 میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ صرف چیف جسٹس ہی سپریم کورٹ کے سو موٹو دائرہ کار کا استعمال کرسکتے ہیں جس بینچ نے یہ متنازع فیصلہ دیا اس میں جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجازلاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس قاضی امین احمد اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔ مارچ 2021 میں عمران خان کی ایما پر صدر عارف علوی کی جانب سے ایک صدارتی ریفرنس دائر ہوا اور سپریم کورٹ سے سینیٹ الیکشن سے متعلق رائے مانگی گئی کہ کیا آئین کے مطابق ان انتخابات کو سیکریٹ بیلٹ کے ذریعے ہونا چاہیے یا اوپن بیلٹ کے ذریعے، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ سینیٹ انتخابات سیکریٹ بیلٹ کے ذریعے ہی ہونے چاہئیں فیصلہ دینے والے بینچ میں جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطاء بندیال ، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مشیر عالم اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل تھے جب کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھااور صدارتی ریفرنس کو واپس کردیا تھا۔
.. اپنی مدت ملازمت ختم ہونے سے ایک دن پہلے چیف جسٹس ، جسٹس عمر عطاء بندیال نے چیئر مین تحریک انصاف عمران کی درخواست پر فیصلہ سنادیا اور قومی احتساب بیورو کو ریگیولیٹ کرنے کے لیےگزشتہ حکومت کی طرف سے نیب قانون میں کی گئی 90 فیصد ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا، نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کا یہ فیصلہ 2 ایک کے تناسب سے جاری کیا گیا ۔ جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن نے اس حوالے سے اکثریتی فیصلہ لکھا اور جسٹس منصور علی شاہ نے اس فیصلے سے اختلاف کیا . پھر مئی 2022 میں سپریم کورٹ نے پراسیکیوشن برانچ میں حکومتی مداخلت پر ازخود نوٹس لے لیا اور یہ از خود نوٹس چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ایک جج کی سفارش پر لیا اور اس حوالے سے جو بینچ تشکیل دیا گیا اس میں جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس مظاہر اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے ۔

مئی 2022 میں پی ٹی آئی کو ڈی چوک پراحتجاج سے متعلق سپریم کورٹ کے احکامات کی پیروی نا کرنے پرجب چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف توہین عدالت کا مقدمہ دائر ہوا تو اس حوالے سے جو بینچ بنا اس میں جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر اکبر نقوی اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل تھے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس کیس میں تو اپنا مائنڈ واضح کردیا کہ عمران خان پر توہین عدالت لگ سکتی ہے لیکن بینچ کے باقی اراکین اس معاملے کو دبا کر بیٹھ گئے اور آج تک اس کیس کا فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔ جولائی 2022 کو سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا اور جو ووٹ پارٹی لائن کیخلاف پرویز الٰہی کے حق میں دیے گئے تھے انہیں تسلیم کرکے پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ قرار دیا گیا، فیصلہ دینے والے بینچ میں جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔

مارچ 2023 میں سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے از خود نوٹس لیا اور جو بینچ بنایا گیا اس میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظاہر اکبر نقوی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔ پھر اپریل 2023 میں الیکشن کمیشن کی طرف سے اکتوبر 2023 تک الیکشن کی تاریخ رکھنے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا اور خود پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کی تاریخ رکھی جس پر حکومت نے عمل در آمد نہیں کیا اور اس بینچ میں، چیف جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اورجسٹس منیب اختر شامل تھے۔ بہت سے دیگر کیسوں کی طرح اپنی مدت ملازمت ختم ہونے سے ایک دن پہلے چیف جسٹس ، جسٹس عمر عطاء بندیال نے چیئر مین تحریک انصاف عمران کی درخواست پر فیصلہ سنادیا اور قومی احتساب بیورو کو ریگیولیٹ کرنے کے لیےگزشتہ حکومت کی طرف سے نیب قانون میں کی گئی 90 فیصد ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا، نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کا یہ فیصلہ 2 ایک کے تناسب سے جاری کیا گیا ۔ جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن نے اس حوالے سے اکثریتی فیصلہ لکھا اور جسٹس منصور علی شاہ نے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔ اس فیصلے سے پاکستان تحریک انصاف کو جہاں بڑا ریلیف ملا تو وہیں اس کا سب سے بڑا نقصان سابق حکمراں اتحاد کی سیاسی جماعتوں کو ہوسکتا ہے جس میں سر فہرست پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ہیں کیونکہ نئی نیب ترامیم کے بعد ان دونوں جماعتوں سے وابستہ سیاستدانوں کے جو کیسز ختم ہوگئے تھے اب وہ دوبارہ بحال ہوسکتے ہیں .اس جائزے کی روشنی میں قانونی دماغوں اور سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن ہمیشہ سے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز کے مخالف دھڑے میں رہے ہیں . سپریم کورٹ میں کم از کم سات جج اس گروپ میں شمار کیے جاتے ہیں جن میں اکثریت ان جونیر ججز کی ہے جنھیں عمر عطا بندیال نے سنیارٹی کے اصولوں کو نظر انداز کر کے عدالت عظمی میں متعین کیا. جسٹس قاضی فائز کے چیف جسٹس رہنے کی مدت صرف تیرہ ماہ ہے جو زیادہ طویل نہیں ایسے میں عمرانڈو ججوں کا دھڑا یہ کوشش کر سکتا ہے ان کی گرفت ادارے پر مضبوط نہیں ہونے پاۓ اور ان کے جانے تک جسٹس اعجاز کی چیف جسٹس کی حیثیت کو مظبوط بنیاد فراہم کی جاۓ . واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے ایک اور عمرانڈو جج جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف کرپشن ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں زیرسماعت ہے قاضی فائز کے بطور چیف جسٹس کے حلف کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل اور جوڈیشل کمیشن میں بھی اہم تبدیلیاں کر دی گئیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن بھی بن گئےہیں ،جسٹس سردار طارق پہلے ہی سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ ہیں، آئین کے مطابق چیف جسٹس اور 2سینئر ترین ججز سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ ہوتے ہیں . اس طرح امکان ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کرپشن ریفرنس کی کاروائی کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن اپنے عمرانڈو ساتھ جسٹس مظاہر علی نقوی کے خلاف نہیں جائیں گے.

Related Articles

Back to top button