کیا عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ دوبارہ گود میں اٹھانے والی ہے؟

عمران خان اور ان کی بچی کھچی پی ٹی آئی کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی مفاہمت یا پس پردہ ڈیل کی کوششوں سے متعلق کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی ہے۔ عمرانڈو صدر عارف علوی سے محمد علی درانی کی ملاقات کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس حوالے سے سنائی جانے والی تمام کہانیاں من گھڑت ہیں۔ذرائع کا دعویٰ ہے چیئر مین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف 9 مئی کے واقعات کا ماسٹر مائنڈ ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں جس کے بعد طے ہو چکا ہے کہ عمران خان کو کوئی معافی نہیں ملے گی۔

روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی حلقوں میں اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف کے مابین ڈیل کی خبریں زیر گردش ہیں تاہم باخبر ذرائع نے اس حوالے سے زیر گردش مبینہ خبروں اور تبصروں کو رد کیا ہے اور ساتھ ہی کہا ہے کہ اس نوعیت کی مفاہمت کے دور دور تک کوئی آثار نہیں ہیں۔ بلکہ زیادہ امکان یہ ہے کہ عام انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی پر پابندی لگ جائے گی جبکہ جنرل الیکشن کے موقع پر بھی عمران خان کی نا اہلی برقرار رہنا یقینی دکھائی دے رہا ہے۔ ‘

واضح رہے کہ عمران خان اور بچی کھچی پی پی ٹی آئی کے ساتھ پس پردہ مفاہمت کی کوششوں سے متعلق تبصروں نے اس وقت زور پکڑا۔ جب سابق وفاقی وزیر اطلاعات محمدعلی درانی نے ایوان صدر میں صدر عارف علوی سے ملاقات کی ۔ اگر چہ انہوں نے اس ملاقات کے اغراض و مقاصد پر میڈیا سے بات نہیں کی ۔ تاہم انفرادی طور پر بعض تجزیہ نگاروں سے بات چیت ضرور کی اور انہیں یہ تاثر دیا کہ جیسے وہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین برف پگھلانے کے لئے پیغام رساں کا رول ادا کر رہے ہیں۔ جس کے بعد سے تبصروں اور ویلاگز کا سلسلہ چل پڑا۔ جوملاقات کے پانچ روز بعد بھی جاری ہے۔تاہم اس معاملے سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ یہ سب کہانیاں ہیں ۔عمران خان کی سربراہی میں چلنے والی پی ٹی آئی سے مفاہمت کی کوشش تو دور کی بات ہے ایسا کوئی آپشن تک زیر غور نہیں ۔ان ذرائع کا مزیدکہنا تھا کہ چند روز صدر عارف علوی سے جن دو اہم شخصیات نے ملاقات کی۔ اگر کوئی پیغام دینا مقصود ہوتا تو یہ دونوں دے سکتے تھے۔ اس کے لئے محمد علی درانی کی کیا ضرورت تھی ؟لہذا اس حوالے سے سنائی جانے والی ساری کہانیاں من گھڑت ہیں۔ جہاں تک محمد علی درانی کی جانب سے کسی مفاہمتی عمل کے اشارے دینے کا تعلق ہے تو موصوف مشرف دور کے بعد سے سیاست سے آؤٹ ہیں۔ انہیں سیاست میں زندہ رہنے کے لئے کوئی بہانہ چاہئے۔ تاکہ خبروں میں آسکیں۔ اس سے زیادہ صدر علوی سے ان کی ملاقات کی کوئی اہمیت نہیں۔

ذرائع کے بقول محمد علی درانی کی صدر علوی سے ملاقات تو کون میں خوانخواہ کے مترادف تھی۔ اگر وہ ماضی میں کنگ میکر رہے ہوتے تو پھر بھی ان کی ملاقات کی اہمیت بن جاتی۔ دوسری جانب آئینی طور پر اپنی مدت پوری کر نے والے صدر علوی کی اہمیت بھی برائے نام رہ گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق انہیں سمجھا دیا گیا ہے کہ اگر آپ نے مزید دن ایوان صدر میں گزارنے ہیں تو یہ توقع مت رکھیں کہ یہاں بیٹھ کر ہمیں کوئی ہدایات جاری کریں گے اور اس پر من و عن عمل ہو گا۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران خان کے ساتھ مفاہمت کے دروازے اس لئے بھی بند ہو چکے ہیں کہ اداروں کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ 9 مئی کے واقعات کے وہ ماسٹر مائنڈ تھے اور یہ طے کیا جا چکا ہے کہ عمران خان سمیت اس سانحہ میں ملوث کسی فرد کومعافی یا رعایت نہیں دی جائے گی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر علوی اور محمد علی درانی کے مابین ملاقات کو لے کر تبصرے اور کہانیاں گھڑنے والوں میں بعض پیرا شوٹرز یوٹیوبرز کے ساتھ ساتھ چند صحافی اور تجزیہ کار کہلانے والے بھی پیش پیش ہیں۔ ایک ویلاگر نے دعوی کیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے محمد علی درانی کو یہ پیغام دے کر صدر علوی کے پاس بھیجا تھا کہ اگر عمران خان نے اپنی سیاست بچانی ہے تو وہ سرنڈر کرتے ہوئے اپنا ٹمپر پچر نیچے لا ئیں ۔ اسی طرح ایک تجزیہ کار جو اکثر مختلف ٹی وی پروگرامز میں دکھائی دیتے۔ وہ یہ دور کی کوڑی لائے کہ محمد علی درانی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بھیجا جائے والا یہ پیغام صدر علوی کے پاس لائے تھے کہ اگر پارٹی بچانی ہے تو شہباز شریف بن جاؤ مختلف دھڑوں میں پی ٹی آئی کی تقسیم کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد بھی عمران خان والی پی ٹی آئی موجود ہے۔ جس میں اسد قیصر اور علی محمد خان سمیت دیگر ایسے لوگ موجود ہیں جن کو پکڑا نہیں جارہا۔ بیشتر رہنماؤں پر تو کوئی کیس بھی نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کو کہا جارہا ہے کہ تمہارا لیڈر جیل میں ہے۔ اگر تم لوگوں نے عمران خان والی پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے سیاست جاری رکھنی ہے تو مفاہمت کی سیاست کرنی ہوگی۔ جبکہ صدر علوی کے پاس آپشن ہے کہ وہ ایسے گروپ کو لیڈ کریں۔ اور یہ کہ اس پر کافی حد تک عارف علوی آن بورڈ ہیں۔ اس تجزیہ کار کے دعوے کے بقول صدر علوی کو شہباز شریف کی مثالیں دی گئی ہیں۔ جو نواز شریف پر دباؤ بڑھا کر انہیں مزاحمت سے مفاہمت پر لے آئے تھے۔ اسی طریقہ کار پر چلتے ہوئے جو پی ٹی آئی بچ گئی ہے۔ وہ اکٹھی ہو کر اپنی قربانیوں کا واسطہ دیتے ہوئے عمران خان سے مزاحمت ترک کر نے کا مطالبہ کرے۔ موجودہ حالات میں عمران خان کے لئے اپنے ان رہنماؤں کا مطالبہ رد کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اسی فارمولے پر کام کیا جارہا ہے۔ انہوں نے محمد علی درانی سے اپنی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ درانی نے انہیں بتایا کہ وہ ہمیشہ مفاہمت کی بات کرتے ہیں اور اسی کے لیے کوشاں ہیں۔ تجزیہ کار کے بقول جب ان سے پوچھا گیا کہ اس سلسلہ میں کیا وہ عمران خان سے بھی ملاقات کریں گے؟ تو محمد علی درانی کا کہنا تھا کہ ماضی میں وہ شہباز شریف سے ملے تھے نواز شریف سے نہیں۔

Related Articles

Back to top button