کیا عمران ضمنی الیکشن محض ووٹ کی طاقت پر جیتے؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار وسعت اللہ خان نے کہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ اگر فوجی اسٹیبلشمنٹ اپنی آئی پر آ جائے تو کم ازکم ضمنی الیکشن کی یہی روایت رہی ہے کہ صرف وہی لوگ جیت پاتے ہیں جنہیں اسٹیبلشمنٹ جتانا چاہے۔ لہٰذا پنجاب میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے نتائج کی روشنی میں تحریکِ انصاف کو کھلے دل سے یہ اعتراف بھی کرنا چاہیے کہ یہ انتخاب گزشتہ ضمنی الیکشن کے موازنے میں زیادہ شفاف اور منظم تھا اور آئندہ اس میں مزید بہتری لائی جا سکتی ہے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں وسعت اللہ خان پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ عوامی طاقت کے بل بوتے پر بیس میں سے پندرہ نشستیں جیتے ہیں تو باقی پانچ نشستوں کے بارے میں بھی آپ کو یہی سوچنا چاہیے کہ وہ امیدوار بھی ان حلقوں میں ووٹروں کی طاقت کے بل پر ہی جیتے ہوں گے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ بے پناہ دباؤ اور جانبداری کے باوجود پندرہ نشستیں نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں تو پھر اسی منطق کا اطلاق بقیہ پانچ حلقوں پر بھی ہونا چاہیے جو آپ ہی کے سابق حلقے ہیں۔ لیکن افسوس کہ عمران خان نے ایک مرتبہ پھر الیکشن کمیشن پر دھاندلی کا الزام عائد کر دیا ہے۔
پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت کے ممکنہ خاتمے پر تبصرہ کرتے ہوئے وسعت اللہ کہتے ہیں کہ اب یہ امکان پہلے سے زیادہ ہے کہ عام انتخابات جلد سے جلد کرانے پر تمام سیاسی کھلاڑیوں کا اتفاق ہو جائے تاکہ معلق معیشت کو زمین پر اتارنے کے لیے ضروری سیاسی و انتظامی یکسوئی حاصل ہو سکے۔ یہ اعتراف خود تحریکِ انصاف کے حلقے بھی کرنے لگے ہیں کہ اس معاشی چیلنج سے اکیلے نپٹنا کسی بھی حکومت کے لیے بذاتِ خود سنگین آزمائش ہے۔
لہٰذا عمران خان تازہ کامیابی کے بعد اگر اگلے عام انتخابات کی مہم میں اس نیت سے جائیں کہ وہ جیتنے کی صورت میں پہلے سارے چوروں کو الٹا لٹکائیں گے اور پھر کوئی اور کام کریں گے تو سچ یہ ہے کہ یہ تجربہ پچھلے ساڑھے تین برس میں کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں لا سکا اور نہ ہی مستقبل میں ایسا ہونا ممکن ہے۔
وسعت اللہ بتاتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کو موجودہ کامیابی انھی نشستوں پر ہوئی ہے جو پہلے بھی اسی کے پاس تھیں۔ ایسے میں اپنی ہی سیٹیں جیت کر مستقبل میں بھی انہیں کامیابی کا پیمانہ بنانا درست نہیں۔ اگر پنجاب کے ضمنی الیکشن میں کامیابی کو پیمانہ بنا کر عمران عام انتخابات میں اترے اور نتائج حسب ِ منشا نہ آئے تو کیا پھر موصوف دوبارہ یہ نعرہ لگائیں گا کہ سارا انتخابی عمل ہی فراڈ ہے، لہٰذا چلو چلو اسلام آباد چلو؟ لہٰذا عام انتخابات کے نتائج کو ضمنی انتخابی فتح کی عینک اتار کے دیکھنے کی ضرورت کو اہمیت دینی چاہیے۔ یہ نکتہ اس لیے اہم ہے کہ اسی نکتے پر مستقبل کے سیاسی و اقتصادی استحکام کا دار و مدار ہے۔
وسعت اللہ خان کے بقول جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کو اس کے طے شدہ دائرے تک محدود رکھنے کی تمنا ہے تو کہنا جتنا آسان ہے ہونا اتنا ہی مشکل ،اسٹیبلشمنٹ اور غیر سیاسی اداروں کو آکسیجن اگر ریاستی آئین کے مہربند سلنڈر کے بجائے سیاسی جماعتوں اور سیاست بازوں سے ملتی رہی تو نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلے گا۔ اگر سیاستدان واقعی سیاسی معاملات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں تو پھر سلیکٹڈ اور امپورٹڈ جیسی لفظیات دفنا کے ملک کی کم از کم تین بڑی جماعتوں کو ایک سہ فریقی عہدنامے پر متفق ہونا پڑے گا۔ اسٹیبلشمنٹ کا رسوخ سکیڑنا ہے تو باہم دل بڑا کرنا پڑے گا۔اگر سیاستدانوں کا دل پہلے جیسا سکڑا رہا تو فوجی اسٹیبلشمنٹ اور بھی پھلے اور پھولے گی اور اس کام کے لیے اسے تابع داروں اور موقع پرستوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔ سیاستدان یا تو اپنی اپنی ناک سے آگے دیکھنا سیکھ لیں یا پھر جمہوری پاکستان کا مستقبل حال میں ہی دیکھ لیں۔ ناک اور نیک مستقبل ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔
وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ انتخابی عمل کیسا بھی ناقص ہو اسے جاری رہنا چاہیے۔ یہ مشق دوہراتے رہنے کے نتیجے میں ووٹر کو اپنے گزشتہ فیصلوں کی خامیوں کا پتہ چلتا رہتا ہے۔ اگر یہ عمل جاری رہے تو وہ لڑکھڑاتا گرتا پڑتا چلنا سیکھ ہی جاتا ہے۔ لیکن اگر یہ عمل درمیان میں ہی رک جائے یا روک دیا جائے تو پھر جوہڑ بن جاتا ہے اور سفر کو صفر سے شروع کرنا پڑتا ہے۔ اگر سیاسی اور جمہوری عمل بہتا رہے تو صرف ووٹر، امیدوار، سیاسی جماعت یا اس کی قیادت ہی مستفید نہیں ہوتی بلکہ ان اداروں کو بھی قدرے اور ذہنی بالیدہ ہونے کا موقع ملتا ہے جو روزمرہ سیاسی و جمہوری عمل کا براہِ راست آئینی حصہ نہ ہونے کے باوجود اپنے حجم اور طاقت کے بل پر کھیل پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
وسعت اللہ خان کے مطابق اگر عمران واقعی پاکستانی سیاست کو اتھل پتھل سے نکالنے کے لیے پرعزم ہیں اور اپنے نئے پاکستان کو سیاسی طور پر مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر انھیں اس سوچ کی کڑوی گولی بھی نگلنا پڑے گی کہ سیاسی مخالفین جانی دشمن اور غدار نہیں ہوتے، وہ آپ کے لیے انتہائی ناپسندیدہ ہو سکتے ہیں۔آپ بھلے انھیں نجی حیثیت میں کبھی چائے پر بھی مدعو نہ کریں لیکن جب آپ ایک سیاسی جماعت کے قائد یا پھر کسی آئینی عہدے پر متمکن ہوتے ہیں تو ذاتی پسند ناپسند یا نفرت کو سیاسی گفتگو، مذاکراتی عمل ، کردار سازی اور قومی اہمیت کے کسی اہم نکتے پر اتفاق کی اشد ضرورت پر ہرگز اثرانداز نہیں ہونا چاہیے۔اس عادت کے نتیجے میں دوسری جانب سے بھی کسی خیر کی توقع عبث ہے اور حتمی نقصان سیاسی و جمہوری عمل اور ملکی ترقی کے مستقبل کو ہی پہنچتا ہے۔
عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے وسعت اللہ کہتے ہیں کہ اگر آپ اب عوامی طاقت پر بھروسے کے پہلے سے زیادہ عادی ہو گئے ہیں تو عوام بھلے آپ کے امیدواروں کو منتخب کریں یا آپ کے ناپسندیدہ امیدواروں کو چنیں، دونوں صورتوں میں عوامی فیصلے کا مجموعی احترام لازم ہے کیونکہ عوامی فیصلے کو بھی ذاتی پسند ناپسند کے خانے میں بانٹنا سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے بجائے گول گول گھماتا رہے گا۔ ویسے بھی ضمنی الیکشن میں کامیابی کے بعد اگر عمران سمجھتے ہیں کہ وہ نیوٹرلز، ایکس، وائی، زیڈ اور جانبدار الیکشن کمیشن اور ریاستی مشینری کے بے پناہ دباؤ کے باوجود محض ووٹ کی طاقت پر جیتے ہیں تو انھیں اپنے اس موقف پر دوبارہ سے غور کرنا چاہیے۔