کیا نواز شریف ، عمران خان کی خاطر فوج کے خلاف کھڑے ہو جائیں؟

اگر جنرل اکبر خان سازش سے لے کر جنرل ظہیرالاسلام عباسی سازش تک تمام کرداروں کو اپنے کئے کی سزا ملی ہے تو کیا نو مئی کو ہونے والی ’’ زمان پارک سازش‘‘ پر صرف اسلئے مٹی ڈال دی جائے کہ اس کے مرکزی کردار عمران خان نے وردی نہیں پہن رکھی؟ آج اگر نوازشریف کے سینے میں فرشتے کا دِل بھی ہو تو وہ کیا کرے؟ کیا وہ سینہ سپر ہوکر فوج کے سامنے کھڑا ہوجائے اور 9 مئی کی خوں رنگ شام کے دفاع میں تلوار سونت لے؟ یہ سوالات مسلم لیگ نون کے سینیٹر اور سینئر سیاسی تجزیہ کار عرفان صدیقی نے اپنے ایک کالم میں پوچھے ہیں. وہ لکھتے ہیں کہ ایک نقطہ نظر کی بنیادی بلکہ بھیانک غلطی یہی ہے کہ 9مئی کی منصوبہ بند سازش کو ’’سیاسی معاملہ‘‘ سمجھا جارہا ہے۔ یہ کسی بھی پہلو سے سیاسی معاملہ نہی۔اسی مغالطے کی رو میں بہتے ہوئے اصرار کیا جا رہا ہے کہ 9مئی کو پی ٹی آئی کی ’’غلطی‘‘ سے بھی درگزر کرلیا جائے . ’’مُبلّغین مفاہمت‘‘ کا اصرار ہے کہ 9مئی پر مٹی ڈالنے اور معافی تلافی کی ذمہ داری نوازشریف پر عائد ہوتی ہے. بقول عمران خان، اُن پر ایک سو سے زائد مقدمات دائر ہیں، کوئی ایک بھی نوازشریف نے درج نہیں کرایا۔ خود عمران خان، اپنی افتاد کا ذمہ دار نوازشریف کو نہیں ’’راولپنڈی‘‘ کو ٹھہراتے ہیں۔ انہوں نے مختلف عدالتوں میں متعدد پٹیشنز دائر کر رکھی ہیں۔ کسی ایک میں بھی نوازشریف کو فریق نہیں بنایا۔ وہ جانتے ہیں کہ لڑائی کس سے ہے اور معاف کردینے کی صلاحیت کون رکھتا ہے۔ ہر پاکستانی جانتا ہے کہ عمران خان نے اگر معافی تلافی کا معاملہ کرنے کیلئے اپنے دل و دماغ پر پڑا قفل کھولنا ہے تو اسکی چابی نواز شریف نہیں، خود عمران کی جیب میں ہے اور اگر فوج نے خود پر ہونیوالے حملوں کو محض ایک ’’سیاسی معاملہ ‘‘سمجھتے ہوئے کوئی فراخ دلانہ فیصلہ کرنا ہے تو اسکی چابی بھی، نوازشریف نہیں، خاکی وردی والوں کی جیب میں ہے جنکے سربراہ نے دو روز قبل ہی کہا ہے کہ ’’کسی گروہ کی مسلح کارروائی ناقابلِ قبول ہے۔‘‘ سپریم کورٹ نے بھی اپنے ایک حالیہ فیصلے میں 9مئی کے واقعات کو تشدد آمیز کارروائیاں قرار دیا ہے جنہیں اپنے مقاصد کے حصول کا ’’جائز‘‘ طریقہ سمجھ لیاگیا ۔ سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور عمران خان کے تعلقات کی کہانی میں کپتان کی ’’گرم جوشی‘‘ کا کسے اندازہ نہیں؟ 2013ء کی انتخابی مہم میں عمران خان اسٹیج سے گر کر زخمی ہوئے تو نوازشریف نے جلسۂِ عام میں اُنکی صحتیابی کی دعا کی۔ دودِن کے لئے انتخابی مہم معطّل کردی۔ ہسپتال میں اُنکی عیادت کو گئے۔ وزیراعظم بنے تو تلخیاں کم کرنے کیلئے بنی گالہ چلے گئے۔ جواب میں انہیں چور ڈاکو کی گردان، اپنے دفتر اور رہائشگاہ پر فدائین کی گالیوں اور الزام ودشنام کے سوا کچھ نہ ملا۔ نفرتوں کی آگ مسجد نبویؐ کی مشکبو فضائوں تک پہنچ گئی۔ اکتوبر 2004ء میں میاں محمد شریف کا انتقال ہوا تو آمر وقت، پرویز مشرف نے بھی نواز اور شہباز کو فون کرکے تعزیت کی۔ عمران خان کو توفیق نہ ہوئی۔ نوازشریف کی والدہ اور اہلیہ کا انتقال ہوا تو عمران وزیراعظم تھے۔ گھر جاناتو دور فون پر بھی تعزیت نہ کی۔ ایک رسمی بیان کافی سمجھا۔ آج اگر نوازشریف کے سینے میں فرشتے کا دِل بھی ہو تو وہ کیا کرے؟ کیا وہ سینہ سپر ہوکر فوج کے سامنے کھڑا ہوجائے اور 9 مئی کی خوں رنگ شام کے دفاع میں تلوار سونت لے؟ کیا 9 مئی کوئی روایتی قبائلی جھگڑا تھا؟ کیا یہ گائوں کی سوکنوں کی کوئی لڑائی تھی کہ کوئی بڑا بوڑھا پنچایت لگا کر فتویٰ جاری کر دے؟ ایک بار اس مکروہ سازش پر مٹی ڈال دی گئی تو کل کوئی بھی جتھہ، کوئی بھی گروہ، کوئی بھی بے مہار مجمع، دفاعِ وطن کی علامتوں پہ چڑھ دوڑے گا اور پھر ’’سیاسی جماعت‘‘ کی بُکّل مار کر، تسبیح تھامے ’’مٹی ڈالو‘‘ کا ورد کرنے لگے گا۔ اگر جنرل اکبر خان سازش سے لے کر جنرل ظہیرالاسلام عباسی سازش تک تمام کرداروں کو اپنے کئے کی سزا ملی توکیا’’ زمان پارک سازش‘‘ پر صرف اسلئے مٹی ڈال دی جائے کہ اس کے مرکزی کردار نے وردی نہیں پہن رکھی؟ اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آئین وقانون کے تقاضوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے ملزمان کو کڑی سزائیں سنا کر نمونۂِ عبرت بنادیا جائے۔ ہر شہری کے آئینی حقوق ہیں۔ اُنکی پاسداری ہونی چاہیے۔ زیادتی یا ناانصافی کا ہلکا سا شائبہ بھی بے لاگ انصاف کے تاثر کو مجروح کردیتا ہے۔ عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ عمران خان سے مصالحت کی بنیادی بحث سے تعلق رکھنے والے اہم سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا 9 مئی کی شام جی۔ایچ۔کیو، کوئٹہ چھائونی، کور کمانڈر ہائوس، عسکری پلازہ، میانوالی ائیر بیس، قلعہ بالا حصار، پنجاب رجمنٹ سینٹر مردان، چکدرہ چھائونی اور شہداء کی یادگاروں پر حملے سوچی سمجھی منصوبہ بند سازش نہیں تھی؟ اگر تھی تو دفاعی تنصیبات پر حملوں کا ماسٹر مائنڈ کون تھا؟ اور کیا اسے محض ’’سیاسی معاملہ‘‘ قرار دیکر جمہوری رواداری کی قبا پہنا دی جائے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ 9مئی سے رشتہ وتعلق کے جرم میں چار جرنیلوں، سات بریگیڈئیرز سمیت اٹھارہ اعلیٰ افسران کو سزا کیا کہہ رہی ہے؟ عمران خان کی سازش پر ’’مٹی ڈالنے‘‘ والےاِن ’’مظلوم‘‘ افسران کے حق میں آواز کیوں نہیں اُٹھا رہے؟ تیسرا سوال یہ کہ کیا 9مئی جیسے سازشی حملوں سے صرف اس لئے صرفِ نظر کیا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ کرنیوالی ’’ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت‘‘ ہے؟ آخری سوال یہ ہے کہ اگر معاملہ سازشی حملہ آوروں اور حملے کا نشانہ بننے والوں کے درمیان ہے تو نوازشریف کیا کرسکتا ہے اور اُسے نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟
ان سوالات کے بے لاگ اور متعّین جوابات کے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی