کیا UAE بطور ثالث پاک بھارت تعلقات بہتر کروا پائے گا؟

متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستان اور بھارت کے مابین سفارتی تعلقات بہتر بنانے کے لئے سہولت کاری کی خبریں سامنے آنے کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا عرب دنیا کا یہ چھوٹا سا ملک دنیا کی 20 فیصد آبادی رکھنے اور تین جنگیں لڑنے والے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دو ہمسایہ ممالک انڈیا اور پاکستان کے تعلقات بہتر کروانے میں کامیاب ہو پائے گا؟ وزیر اعظم شہباز شریف نے العربیہ نیوز چینل کو دیے گئے انٹرویو میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بہت ساری باتیں کی ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ ’میں نے متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان سے درخواست کی ہے کہ وہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان مفاہمت کی سہولت فراہم کریں کیونکہ یو اے ای نہ صرف پاکستان کا دوست ہے بلکہ اس کے انڈیا کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔ متحدہ عرب امارات دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے حوالے سے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
تاہم اس انٹرویو کے نشر ہونے کے اگلے روز وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والی وضاحت میں کہا گیا ہے کہ انڈیا سے بات چیت اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ختم نہیں کر دیا جاتا، شہباز شریف کے اس انٹرویو پر انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے کہا، ’اس طرح کی بات چیت کے لیے امن کا ماحول ہونا چاہئے۔
شہباز شریف نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ میں انڈین وزیراعظم نریندر مودی کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ آئیے مل کر بیٹھیں اور کشمیر جیسے سلگتے ہوئے مسئلے پر سنجیدہ بات کریں، ایسے میں سوال یہ ہے کہ ماضی میں انڈیا اور پاکستان کو ایک ساتھ لانے میں متحدہ عرب امارات کا کیا کردار رہا؟ کیا متحدہ عرب امارات واقعی شہباز شریف کی توقعات پر پورا اتر سکتا ہے اور یو اے ای، انڈیا اور پاکستان دونوں ہی کے لیے اتنا خاص کیوں ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ متحدہ عرب امارات کو اس سب سے کیا حاصل ہوگا؟
بی بی سی کی ایک رپورٹ میں تینوں ممالک کے درمیان تعلقات کو سمجھنے کے لیے آبادی اور تجارت سے آغاز کیا گیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی کل آبادی 93 لاکھ کے قریب ہے۔ یہاں 35 لاکھ انڈین شہری جبکہ پاکستانیوں کی تعداد 13 لاکھ سے زائد ہے۔ تجارت اور صنعت کی وزارت کے مطابق متحدہ عرب امارات انڈیا کا تیسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ 2021-22 میں دونوں ممالک کے درمیان تقریباً 73 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی۔ توقع ہے کہ اگلے تین برسوں میں یہ تجارت 100 ارب ڈالر سے زیادہ ہو جائے گی۔ متحدہ عرب امارات انڈیا میں آٹھواں بڑا سرمایہ کار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق متعدد انڈین کمپنیوں نے متحدہ عرب امارات میں تقریباً 85 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
انڈیا متحدہ عرب امارات کو قیمتی دھاتیں، پتھر، زیورات، معدنیات، شکر، پھل، سبزیاں، چائے، گوشت، کپڑا، انجینئرنگ مشینری کا سامان اور کیمیکلز برآمد کرتا ہے۔ جبکہ انڈیا متحدہ عرب امارات سے پٹرولیم مصنوعات، جواہرات اور زیورات اور خام تیل درآمد کرتا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور انڈیا کے درمیان تعلقات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جون 2022 میں جب وزیراعظم نریندر مودی ابوظہبی گئے تھے تو شیخ محمد بن زید النہیان خود ایئرپورٹ پر انھیں لینے آئے تھے۔
دوسری جانب پاکستان کے بھی یو اے ای سے اچھے تعلقات ہیں اور جنوری 2023 میں جب پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف یو اے ای گئے تو انھیں مالی بحران سے نکلنے کے لیے تین ارب ڈالر کی امداد دی گئی۔ 2021-22 میں متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے درمیان تقریباً 10 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی۔ اندازہ ہے کہ آنے والے سالوں میں یہ تجارت مزید بڑھ سکتی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے 2020 میں پاکستان سے ساڑھے پانچ ارب ڈالرز کی برآمدات کیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے متحدہ عرب امارات کو تقریباً ایک ارب ڈالر کی برآمدات کی تھیں۔ متحدہ عرب امارات بنیادی طور پر پاکستان کو تیل اور ’سکریپ آئرن‘ بھیجتا ہے اور پاکستان سونا، گوشت اور چاول یو اے ای بھیجتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستان اور بھارت کے سفارتی تعلقات بہتر کروانے کی کوششیں جنرل قمر باجوہ کے ایما پر عمران خان کے دور حکومت میں ہی شروع ہو گئی تھیں۔ جنوری 2021 میں اس سلسلے میں دبئی میں انڈیا اور پاکستان کے انٹیلیجنس سربراہوں کی ایک ’خفیہ میٹنگ‘ بھی ہوئی تھی۔ اسکے بعد انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور تب کے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ابوظہبی گئے اور ایک خفیہ ملاقات کی۔ اس دوران بلوم برگ کی رپورٹ میں کیا گیا کہ انڈیا اور پاکستان نے متحدہ عرب امارات کی ثالثی سے امن کے لیے روڈ میپ تیار کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔
اگرچہ انڈیا نے متحدہ عرب امارات کی ثالثی کے معاملے کو سرکاری طور پر قبول نہیں کیا لیکن انڈیا نے ہمیشہ کشمیر کے معاملے پر کسی تیسرے ملک کی مداخلت کو سرکاری طور پر مسترد کیا ہے۔ اس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کو قبول نہ کرنے جیسی چیزیں بھی شامل ہیں۔ پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان اس بات سے متفق ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کو بات چیت پر آمادہ کیا جا سکتا ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے بغیر کبھی بھی دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں۔ ان کے مطابق انھوں نے پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ بھی کام کیا ہے اور پھر بعد میں پرویز مشرف کے ساتھ بھی کام کیا مگر ان کی یہ مستقل رائے رہی ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے بغیر نتائج صفر ہی رہیں گے۔ ان کے مطابق سابق حکمرانوں نے ’سٹیٹس کو‘ کو مضبوط بنانے کے علاوہ کوئی پیش رفت نہیں کی۔ لہٰذا شمشاد احمد خان کے مطابق یہ تمام کوششیں بے سود رہیں گی کیونکہ پاکستان کے عوام کشمیر کے بغیر کسی حل کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں اس سارے معاملے میں یو اے ای کو کوئی خاص کامیابی نہیں مل سکتی۔