ترمیمی بل کے بعد فوجی ترجمان اور سرل المیڈا کی طنزیہ ٹویٹس

آرمی ایکٹ میں حالیہ ترامیم کی قومی اسمبلی سے منظوری پر ڈان لیکس کے مرکزی کردار اور سینئیر صحافی سرل المیڈا کی ایک طنزیہ ٹویٹ پر فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے جوابی ٹویٹ کرتے ہوئے سرل کو سکون سے بیٹھ کر شراب پینے کا مشورہ دیا جس سے لگتا ہے مذکورہ صحافی کو ڈان اخبار سے نکالے جانے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کا اس پرغصہ ابھی بھی ٹھنڈا نہیں ہوا۔
7 جنوری کو قومی اسمبلی سے آرمی ایکٹ کی منظوری کے بعد صحافی سرل المیڈا نے ٹویٹ کیا کہ اگرچہ یہ ’پینے‘ کا وقت نہیں ہے تاہم (ب) کے عزم و استقلال کے نام ’ایک جام‘ ہو جانا چاہئے۔ لفظ ب سے سرل المیڈا کا مطلب بوٹ والے تھا۔
سرل المیڈا کا یہ طنزیہ ٹویٹ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کو سخت ناگوار گزرا اور انہوں نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے سرل المیڈا کو کچھ یوں جواب دیا۔ ‘آپ کو وقت کی کیا پرواہ؟ آپ بغیر کوئی لحاظ کئے ایک اور پیجئے، پھر ایک اور پیجئے، اور پھر سکون کریں، آپ کو اس کی بہت ضرورت ہے۔ میجر جنرل آصف غفور کے ٹویٹ کے جواب میں المیڈا نے خاموشی اختیار کرلی ورنہ یہ معاملہ نہ جانے کہاں تک جاتا۔
یاد رہے کہ 5 اکتوبر 2016 کے دن مسلم لیگ نون کی حکومت کے دوران نیشنل ایکشن پلان سے متعلق اعلی سطحی اجلاس میں لیگی حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے مابین گرم گرمی کی خبر ڈان اخبار میں چھپی تو اسے ڈان لیکس کا نام دیا گیا۔ ڈان سے وابستہ سینئر صحافی سرل المیڈا نے اپنی ایکسکلوسیو سٹوری میں یہ بڑا انکشاف کیا تھا کہ گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں لیگی حکومت نے فوجی اسٹیبلشمنٹ پر واضح کردیا ہے کہ پاکستان پر عالمی برادری کا بہت زیادہ دباؤ ہے اس لیے آپ نیشنل ایکشن پلان کے تحت جہادی تنظیموں کی سرپرستی ختم کریں ورنہ پاکستان پر عالمی پابندیاں عائد ہو جائیں گی۔ اس خبر کے بعد ملکی سیاست میں بھونچال آگیا اگلے ہی روز وزیراعظم آفس کی جانب سے اس خبر کو من گھڑت اور قومی سلامتی کے منافی قرار دے کراظہار لاتعلقی کیا گیا اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے آئی ایس آئی چیف کے ہمراہ 10 اکتوبر کو وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کرکے اس خبر کے قومی سلامتی پر اثرات کے حوالے سے تبادلہ خیال بھی کیا۔ بعد میں سرل المیڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا اور جنرل راحیل شریف کے مطالبے پر حکومت نے المیڈا سے تفتیش کی کہ آخر یہ خبر ان کے پاس کہاں سے آئی۔ یہی نہیں بلکہ شدید دباؤ میں آکر ن لیگ نے وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید کو قربانی کا بکرا بنایا اور ان کی چھٹی کروا دی گئی کیونکہ کیس یہ بنایا گیا کہ یہ خبر پرویز رشید نے لیک کی ہے۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے انکوائری رپورٹ کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کے مشیر طارق فاطمی کو بھی گھر بھجوا دیا گیا مگر فوجی ترجمان کی جانب سے اس وقت ڈان لیکس سے متعلق جاری کردہ نوٹیفکیشن کو نامکمل قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔ بہرحال ڈان لیکس کے بعد سے ڈان اخبار مسلسل زیر عتاب ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر 2019 میں سرل المیڈا نے ڈان اخبار چھوڑ دیا اور ملک سے باہر منتقل ہوگئے مگر لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا غصہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا۔ اسی لیے فوجی ترجمان نے سوشل میڈیا پر سرل المیڈا کے ساتھ سینگ پھنسا لئے ۔
واضح رہے کہ ڈان لیکس میں یہ بتایا گیا تھا کہ نواز حکومت نے فوجی اسٹیبلشمنٹ سے کہا ہے کہ وہ جہادی تنظیموں کی سرپرستی ختم کرے ورنہ پاکستان پر عالمی پابندیاں عائد ہو جائیں گی۔ اس وقت فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اس طرح کی باتیں لیک ہونے کا سخت غصہ آیا تھا مگر آج فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے کہنے پر تحریک انصاف حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ وہی کر رہی ہے جو ماضی میں نون لیگ کی حکومت کروانا چاہتی تھی مگر تب اسے انا کا مسئلہ بنا لیا گیا۔ آج ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیےجہادی تنظیموں کے قیادت کو جیلوں میں ڈالا گیا ہے اور معیشت کو دستاویزی بنانے کے لئے فوج اور تحریک انصاف حکومت شانہ بشانہ چل رہی ہے۔ ایسے میں ڈان لیکس کے مرکزی کرداروں پر تاحال ناراضی کا اظہار سمجھ سے بالاتر ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button