آرمی کی جیگ برانچ کا شہباز گل کے کورٹ مارشل پر غور

پاکستان آرمی کی جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ نے بغاوت کے الزام پر گرفتار ہونے والے عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل کا کورٹ مارشل کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق عسکری حکام حکومت سے رابطہ کرکے شہباز گل کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی تحویل میں دینے کی درخواست کر سکتے ہیں تا کہ اس کا کورٹ مارشل شروع کیا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی ادریس خٹک جیسے کئی سویلینز کے کورٹ مارشل کی مثالیں موجود ہیں جنہیں بغاوت اور غداری کے الزامات پر 14 سال قید کی سزا سنائی جا چکی ہے اور اس کے خلاف سویلین عدالتوں میں اپیل بھی دائر نہیں کی جاسکی۔

سینئر صحافی انصار عباسی کے مطابق عمران خان کے چیف آف سٹاف نے چند روز پہلے اے آر وائے نیوز پر جو کچھ کہا وہ سراسر فوجی جوانوں کو اپنی قیادت کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے مترادف ہے جس کے بعد عسکری حکام سنجیدگی سے شہباز گل کے کورٹ مارشل کی آپشن پر غور کررہے ہیں۔

یاد رہے کہ فوج میں بغاوت پر اکسانے کا معاملہ انتہائی سنگین جرم ہے اور ایسے فرد کیخلاف آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر دفاعی حکام نے یہ فیصلہ کرلیا تو وزارت دفاع کے توسط سے حکومت سے رابطہ کیا جائے گا تا کہ شہباز گل کو تحویل میں لے کر کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کی جا سکے۔ تاہم اس حوالے سے حتمی فیصلہ سویلین حکومت کے مشورے سے ہوگا۔

آرمی ایکٹ کے تحت سویلین افراد پر مقدمہ چلانے کا معاملہ ہمیشہ سے ہی متنازع رہا ہے اور سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں کہ عام آدمی کا فوجی عدالت میں مقدمہ چلنا چاہئے یا نہیں۔ ایک ماہر قانون کے مطابق آرمی ایکٹ کے سیکشن (d) (1) 2 کے تحت ایسے معاملات میں کسی سویلین پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ شہباز گل کیس کی تحقیقات کرنے والے افسران کا کہنا ہے کہ عمران خان کے چیف آف سٹاف کی گفتگو کا مکمل ٹرانسکرپٹ پڑھا جائے تو ثابت ہو جاتا ہے کہ انہوں نے فوج کے رینک اینڈ فائلز کو اپنی قیادت کے خلاف بغاوت پر اکسانے کی ترغیب دی۔ اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ شہباز گل کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت کورٹ مارشل کی کارروائی کا فیصلہ ہو جائے۔ تحقیقاتی افسران کا کہنا ہے کہ شہباز گل کی اے آر وائی پر گفتگو کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے بریگیڈئیر رینک اور اس کے اوپر تک کے افسران کو آپس میں تقسیم کرنے کی کوشش کی اور بریگیڈئیر رینک سے نچلے رینک کے افسران کو تحریک انصاف سے منسلک کرنے کی کوشش کی۔

سی آئی اے نے القاعدہ چیف الظواہری کو کابل میں کیسے ڈھونڈا؟

خیال رہے کہ شہباز گل نے اپنی گفتگو میں کہا تھا کہ فوج کا جو لانس نائیک ہے، حوالدار ہے، سپاہی ہے، کیپٹن ہے، میجر ہے، کرنل ہے، بریگیڈئیر ہے، ان رینکس میں تحریک انصاف کے لیے محبت پائی جاتی ہے کیونکہ یہ لوگ اصل میں پاکستان کے لئے محبت رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کو جیسا پاکستان چاہیے وہ صرف تحریک انصاف ہی بنا سکتی ہے۔ گل نے مزید کہا کہ میں تمام افسران سے التماس کروں گا کہ آپ صرف اپنی نوکری بچانے کے لیے اس جعلی اور چور حکومت کا آلہ کار نہ بنیں کیونکہ ہم ہر چیز پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ایسے تمام لوگ جو اس برے کام میں ملوث ہیں انشاء اللہ ان کا احتساب کیا جائے گا۔

پی ٹی آئی نے فارن فنڈنگ لیکر کن ممالک کے قوانین توڑے؟

اے آر وائی پر ایک اور سوال کے جواب میں شہباز گل نے فوج کے اندر اور عوام میں بغاوت کرانے کی کوشش کرتے ہوئے دھمکایا کہ اگر آپ نے یہ جنگ نہ لڑی تو ہمارا پاکستان جلد ہندوستان اور امریکہ کی کالونی بن جائے گا۔ شہباز نے کہا کہ جو افسران کہتے ہیں کہ ہم تو حکم کے پابند ہیں، انہوں نے امر بالمعروف بھی تو پڑھا ہوا، وہ محمد ﷺ کے اُمتی بھی ہیں، وہ قائداعظم محمد علی جناح کے بنائے ہوئے پاکستان کے شہری بھی ہیں، لہٰذا اگر آپ کو کوئی غلط حکم ملا ہے تو آپ نہ تو پاگل ہیں، نہ اندھے ہیں اور نہ ہی جانور ہیں، آپ انسان ہیں۔

آپ بتائیے کہ سر آپ جو حکم دے رہے ہیں یہ میرے اپنے ملک کی فوج کے خلاف ہے، آپ جو حکم دے رہے ہیں اس سے میرا ادارہ کمزور ہو گا، آپ یہ بھی بتائیے کہ کبھی بھی دنیا کی کوئی فوج تگڑی نہیں ہوتی، جب تک اس کے پیچھے عوام کی اکثریت نہ کھڑی ہو، انہیں بتائیے کہ آپ جو حکم دے رہے ہیں وہ اکثریت کی خواہشات کے خلاف ہے، اور آپ اگر یہ کریں گے تو فوج اور عوام کے درمیان جو محبتوں کا گہرا رشتہ ہے، اس میں نفاق پڑے گا۔ لہذا اندھی تقلید کرتے ہوئے آپ کو یہ سوچنا ہو گا کہ آپ کی حب الوطنی کہیں داؤ پر تو نہیں لگ گئی، آپ غداری کے مرتکب تو نہیں ہو رہے، آپ ایک غیر آئینی، غیر قانونی حکم کو تو نہیں مان رہے، آپ ایک ایسا حکم تو نہیں مان رہے، جس کے ماننے کی وجہ سے آپ اپنے ملک کے دفاع کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔

چنانچہ تحقیقاتی افسران کا کہنا ہے کہ شہباز گل کا بیان فوجی افسران کو اپنی قیادت کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے علاوہ انہیں سیاست میں ملوث ہونے کی بھی ترغیب دیتا ہے۔ لہذا گل کے کورٹ مارشل کی ٹھوس وجوہات موجود ہیں اور ایسا ماضی میں بھی ہو چکا ہے جب کسی سویلین کو فوجی عدالت میں ٹرائل کا سامنا کرنا پڑا اور اسے سزا بھی ہوئی۔ اس حوالے سے عسکری حکام ادریس خٹک کے کیس کا حوالہ دیتے ہیں جنہیں دو برس پہلے بغاوت کے کیس میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور وہ ابھی تک جیل میں ہیں۔

لیکن ہیومن رائٹس اور فوجی امور کے ماہر سینئر وکیل کرنل (ر) انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ آرمی ایکٹ میں ایسا کچھ نہیں کہ سویلین کو گرفتار کرکے اس کا ٹرائل کیا جائے، انکا کہنا تھا کہ صرف ایسے سویلینز کا ٹرائل کیا جا سکتا ہے جو آپریشنل علاقوں میں ہوں اور وہ بھی اس حد تک کہ انہوں نے سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ایوب خان کے دور میں جب ملک بھر میں ان کیخلاف مظاہرے ہو رہے تھے تو انہیں اندیشہ تھا کہ فوج میں ان کیخلاف کہیں بغاوت نہ ہو جائے اس لیے انہوں نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی اور اس میں سیکشن (d) (1) 2 شامل کیا جس کے تحت اگر کوئی شہری (سویلین) فوج کی صفوں کو کمان کیخلاف اکساتا ہے اور سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کیخلاف فوج مقدمہ چلا سکتی ہے۔ کرنل (ر) انعام نے کہا کہ تاہم فوج اس عرصے کے دوران کسی سویلین کیخلاف مقدمہ نہیں چلا سکی، بھٹو کے دور میں ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کو گرفتار کیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے آرمی کمان کو خطوط تحریر کیے تھے اور پھر اس کیخلاف ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلایا گیا اور جیل بھیج دیا گیا۔ وکیل نے مزید بتایا کہ ضیاء کے دور میں احمد فراز اور فرخندہ بخاری کو عسکری حکام نے گرفتار کیا لیکن لاہور ہائیکورٹ نے مداخلت کی اور دونوں کو رہا کر دیا گیا ۔

Related Articles

Back to top button