اب پرویز الٰہی فوج اورعمران میں سے کس کا ساتھ دیں گے؟


عمران کی تحریک انصاف اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مابین کھلی جنگ شروع ہونے کے بعد اب چوہدری پرویز الٰہی ایک دوراہے پر کھڑے ہیں اور انہیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ماضی کی طرح اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیں گے یا عمران خان کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی میں حالیہ تبادلوں اور کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی بہاولپور ٹرانسفر کے بعد عمران کا حمایتی فوجی دھڑا اب کافی کمزور ہو گیا ہے اور اگر پرویز الٰہی نے موجودہ کشیدگی میں عمران خان کے ساتھ کھڑے رہنے کا فیصلہ کیا تو وہ زیادہ عرصہ برسراقتدار نہیں رہ پائیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شہباز گل کی بغاوت کے الزام پر گرفتاری کے بعد پرویزالٰہی نے کھل کر عمران کے موقف کے برعکس موقف اپنایا ہے۔ تحریک انصاف کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل کے فوج مخالف بیان سے لاتعلقی اظہار کرتے اس کی مذمت کی ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کو اقتدار سنبھالنے کے صرف دو ہفتے بعد ہی اس مشکل صورتحال کا سامنا ہے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ اور اپنی اتحادی جماعت تحریک انصاف دونوں کو خوش رکھنے کا چیلنج درپیش ہے۔

چوہدری پرویز الٰہی نے شہباز گل کے بیان کے برعکس خیالات کا اظہار کرتے ہوئے عمران خان کو مشورہ دیا کہ وہ خود کو شہباز گل کے بیان سے الگ کر لیں۔ ان کے مطابق انہوں نے شہباز گل کو فوج مخالف بیان دینے پر ڈانٹا تھا اور کہا تھا، ”کوئی عقل ہے تم میں؟‘‘ ان کی رائے میں فوج مخالف بیان دینے سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ صرف نقصان ہوا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ فوج کے خلاف جو بات کرے گا وہ پاکستانی نہیں ہو سکتا۔ پرویز الٰہی کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب تحریک انصاف کے کئی رہنما شہباز گل کے متنازعہ بیان کی واضح مذمت کرنے سے کترا رہے ہیں۔ پرویز الٰہی نے پی ٹی آئی کے کئی مرکزی رہنماؤں کے خیالات سے ہٹ کر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں واضح لائن اختیار کی ہے۔

لیکن دوسری جانب عمران نے شہباز گل کی گرفتاری کے بعد پہلے ردعمل میں اپنے چیف آف سٹاف کے فوج مخالف بیان کی کھل کر مذمت نہیں کی۔ انہوں نے یہ جواز پیش کیا کہ ماضی میں نواز شریف اور دیگر سیاسی قائدین بھی فوج کے خلاف کھلم کھلا گفتگو کرتے رہے ہیں لیکن بغاوت کا مقدمہ صرف شہباز گل پر کیوں بنایا گیا۔ اس کے بعد موصوف آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر حملہ آور ہو گئے اور اپنے توشہ خانہ کیس کا دفاع کرتے ہوئے یہ مطالبہ کر ڈالا کہ آرمی چیف نے توشہ خانہ سے جو تحائف لیے ہیں ان کی بھی تحقیقات کی جائیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر عمران خان اپنے بیانیے پر قائم رہتے ہیں تو پرویز الٰہی کے لیے ان کے ساتھ چلنا مشکل تر ہو جائے گا کیونکہ انہوں نے ساری زندگی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر سیاست کی ہے اور اب بھی انہوں نے پی ڈی ایم کی بجائے عمران کا ساتھ دینے کا فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کے طاقتور دھڑے کے اشارے پر کیا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا فیض دھڑا اب کمزور پڑ گیا ہے اور فیض حمید بھی آرمی چیف کی دوڑ سے بھی باہر ہو گئے ہیں۔

خیال رہے کہ پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی میں اپنی اتحادی جماعت تحریک انصاف کی مدد سے 186 ووٹ لے کر وزیر اعلٰی منتخب ہوئے تھے جبکہ ان کی اپنی جماعت مسلم لیگ ق کے پاس پنجاب اسمبلی میں صرف 10 ووٹ تھے۔ پرویز الٰہی اور عمران خان کے مابین ان 10 اراکین اسمبلی کو وزارتیں دینے کے معاملے پر پہلے ہی پھڈا پڑ چکا ہے کیونکہ عمران کہتے ہیں کہ 10 سیٹوں کے عوض وزسرت اعلیٰ دینے کے بعد اب وہ کوئی اور وزارت قاف لیگ کو نہیں دیں گے۔ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر عمران اپنے موقف پر قائم رہتے ہیں تو پرویز الٰہی کے دس ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ دیں گے جس سے حکومت ختم ہو سکتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں پرویز الٰہی کو عمران کی بجائے اسٹبلشمنٹ کا ساتھ دینے کا جواز مل سکتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ 76 سالہ چوہدری پرویز الٰہی کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی کے راستے پر نہیں جا سکتے۔ ان کی توجہ اگلے الیکشن سے پہلے پنجاب میں ترقیاتی کاموں کی تکمیل کے ساتھ اپنے ووٹ بینک میں اضافے پر مرکوز رہے گی۔

سینئر صحافی جاوید فاروقی کا کہنا ہے کہ اصل میں پی ٹی آئی کے اندر بھی دو گروپ بن چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کا ایک بڑا حلقہ یہ سمجھتا ہے کہ پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مخاصمت کی پالیسی ٹھیک نہیں، اس سے پارٹی کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف ایک گروپ ایسا بھی ہے جس کے خیال میں طاقت ور حلقوں کو دباؤ میں لا کر ‘بہتر فیصلوں‘ کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ جاوید فاروقی کے مطابق، ”اب دیکھنا یہ ہو گا کہ پارٹی کی پالیسی پر کون سا دھڑا کتنا اثر انداز ہوتا ہے؟‘‘ پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ شہباز گل یا پی ٹی آئی کے دیگر رہنما عموماًپارٹی پالیسی سے ہٹ کر بیان نہیں دیتے۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا اپنی اتحادی جماعت سے مشاورت کے بغیر اپنی مرضی سے شہباز گل کے بیان کے برعکس بیان دینے پر تحریک انصاف چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف کوئی ایکشن لے سکتی ہے، جاوید فاروقی کا کہنا تھا کہ یہ ایک دلچسپ صورتحال ہے کہ پی ٹی آئی پرویز الٰہی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی نہیں لا سکتی اور اگر ایسا ہو بھی گیا تو ‘پاکستان کی حیران کر دینے والی سیاسی صورتحال میں‘ کیا بعید کہ وہ’ آصف علی زرداری کی کرشماتی کوششوں کےطفیل پی ڈی ایم کے امیدوار‘ کے طور پر سامنے آ جائیں۔ یاد رہے کہ پرویز الٰہی نے تحریک انصاف کا حمایت یافتہ امیدوار برائے وزارت اعلیٰ پنجاب بننے سے چند ہی دن پہلے عمران کو ایک ٹی وی انٹرویو میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور کہا تھا کہ وہ اپنی نیپی اب تک فوجی اسٹیبلشمنٹ سے تبدیل کرواتے ہیں۔ ایسے میں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں عمران خان اور پرویز الٰہی کا اکٹھا چلنا آسان نہیں ہو گا۔

Related Articles

Back to top button