افغان طالبان کو اقتدار ملنے سے پاکستان کا فائدہ نہیں نقصان ہوا

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے کہا ہے کہ پاکستان کو اپنی افغان پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہئے کیونکہ کابل میں افغان طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان کی مشکلات میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے. معروف امریکی جریدے فارن افیئرز میں اپنے تازہ تجزیے میں حسین حقانی نے بتایا ہے کہ پاکستان کی افغان طالبان کیلئے دہائیوں پر محیط حمایت کس طرح بیک فائر ہوئی اور اسے فائدے کی بجائے نقصان ہو رہا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ گزشتہ دو دھائیوں سے اسلام آباد کا خیال تھا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے سے بھارت کے خلاف پاکستان کی حیثیت مستحکم ہوجائے گی لیکن نتائج اس کے برعکس نکلے اور کابل میں طالبان کی حکومت آنے سے پاکستان محفوظ ہونے کی بجائے مذید غیر محفوظ ہوگیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی کامیابی نے تحریک طالبان پاکستان کو بھی پاکستان کے خلاف متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

حسین حقانی بتاتے ہیں کہ کابل میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے تحریک طالبان اپنے افغان اڈوں سے پاکستان پر 124 سے زائد دہشت گرد حملے کرچکا ہے جن میں خودکش دھماکے بھی شامل ہیں۔ ٹی ٹی پی کی یہ سرگرمیاں کابل میں اسلام آباد اور طالبان کے درمیان کشیدگی کی وجہ بنی ہوئی ہیں۔ دوسری جانب ان کاروائیوں کے خلاف پاک فضائیہ کے جوابی حملوں نے طالبان حکام کے غصے کو ہوا دی ہے۔ افغان طالبان کے بارڈر سیکیورٹی گارڈز نے پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانے کی پاکستانی کوششوں کو بھی چیلنج کیا جس سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ ہوئے ہیں۔ بقول حقانی، اسلام آباد نے طالبان حکومت کیلئے بین الاقوامی شناخت اور اقتصادی مدد حاصل کرنے کیلئے کوششیں تو بہت کیں لیکن اسے کامیابی بہت کم ملی۔ عالمی برادری نے واضح کیا کہ وہ طالبان کو تب تک تسلیم نہیں کرے گی جب تک کہ وہ اپنا متشددانہ رویہ تبدیل نہ کرے۔ لیکن طالبان خواتین کے حقوق اور لڑکیوں کو سکول بھیجنے کے موقف میں تبدیلی لانے کیلئے تیار نہیں ہیں ایسے میں پاکستان کا یہ موقف کے افغانسان نے طالبان کے دور حکومت میں ترقی کی ہے ایک گمراہ کن بیانیے کے سوا کچھ نہیں لگتا۔

آسمانی دیوتا بن جانے والے عمران کو زمین پر کیسے اتارا گیا؟

حسین حقانی کا کہنا ہے کہ طالبان کے دور حکومت میں افغانستان پاکستان کے لیے ایک پرائی ریاست بن چکی ہے۔ اس عمل کا آغاز تب ہوا جب 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے نے افغان معاشرے کے سیکولر اور پشتون قوم پرست عناصر کو تقویت دی۔ پاکستانی اسلام پسندوں نے طالبان کی حمایت کی، لیکن پاکستانی فوج نے طالبان کی شورش کو سیکولر افغان لیڈروں تحت ہندوستان افغانستان حکومت کے خلاف انشورنس کے طور پر دیکھا۔ اسلام آباد کی باضابطہ تردید کے باوجود پاکستان نے افغان طالبان باغیوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کیں اور طالبان قیادت کو گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان سے باہر کام کرنے کی اجازت دی۔ پاکستان کو توقع نہیں تھی کہ افغانستان سے امریکی انخلاء خطے میں واشنگٹن کے مفادات کے خاتمے کی علامت ہے۔ پاکستان کا خیال تھا کہ وہ امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہوئے طالبان پر اثر و رسوخ برقرار رکھے گا لیکن یہ اس کی بہت بڑی غلط فہمی تھی۔ دوسری جانب طالبان پاکستان کے اندر قدامت پسند علماءاور اسلام پسند سیاسی جماعتیں بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں، جوپاکستان سے امداد تو لیتے رہے لیکن اب وہ ہمیشہ کیلئے پاکستانی پراکسی بن کر نہیں رہنا چاہتے۔ افغان طالبان میں موجود نظریہ ساز ٹی ٹی پی کے ساتھ اپنے تعلقات توڑنے کو تیار نہیں ہیں، جو 2007 کے بعد سے پاکستان میں ہونے والے کئی بدترین دہشت گرد حملوں کے ذمہ دار ہیں۔ یہ وہی ٹی ٹی پی ہے جس نے 2009م یں آرمی ہیڈکوارٹر اور 2014 میں آرمی پبلک سکول پر حملوں کی زمہ داری قبول کی تھی۔

بقول حسین حقانی، افغان طالبان کی کامیابی کے بعد پاکستان کو امید تھی کہ وہ اپنے پاکستانی ہم منصبوں اور پاکستانی حکومت کے درمیان جنگ بندی میں ثالث کا کردار ادا کریں گے لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ جو کچھ بھی ہوا اس سے اب واضح ہوگیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے آنے سے پاکستان کی اس مید پر پانی پھر گیا کہ اسکی مغربی سرحد محفوظ رہے گی۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں سیکولر بلوچ قوم پرست باغیوں کو بھی طاقت حاصل ہوئی ہے جس کی بنا پر بلوچ باغیوں نے پاک چین سی پیک پروجیکٹ کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

حسین حقانی کہتے ہیں کہ اگرچہ اب پاکستان میں نئی حکومت آچکی ہے اور اب امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بہتری آنے کے امکانات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے لیکن افغانستان کے بارے میں پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے، وجہ یہ ہے کہ افغان پالیسی فوج اور آئی ایس آئی کے دائرہ کار میں ہی رہے گی۔ اس کی بڑی وجہ پاکستان کی عسکری قیادت کا ہندوستان کے حوالے سے اپنے عالمی نظریے میں لچک نہ ظاہر کرنا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان افغان طالبان کے ساتھ قریبی تعلقات کو برقرار رکھنے کا پابند ہے۔ اگرچہ اس معاملے میں تبدیلی کی ضرورت ہے لیکن پاکستانی جرنیل بھارت کے ساتھ اپنے تصوراتی اسٹریٹیجک جھگڑے میں ایک پارٹنر کو کھونے کا خطرہ مول لینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔

Related Articles

Back to top button