آئی ایس پی آر نے بی بی سی کی خبرکوجھوٹ کا پلندا قراردے دیا

آئی ایس پی آر نے 9 اور 10 اپریل کی درمیانی شب وزیر اعظم میں رونما ہونیوالے واقعات پر شائع کی جانے والی بی بی سی اردو کی خبر کو جھوٹ کا پلندا او ر گمراہ کن قرار دیا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ بی بی سی اردو کی آج شائع شدہ خبر سراسر بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندہ ہے، بی بی سی کی پروپیگنڈا کہانی میں کوئی معتبر، مستند اور متعلقہ ذرائع نہیں، بی بی سی کی گمراہ کن اسٹوری بنیادی صحافتی اخلاقیات کی خلاف ورزی ہے، اس جعلی کہانی میں کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ ایک منظم ڈس انفارمیشن مہم کا حصہ لگتا ہے،اور
یہ معاملہ بی بی سی حکام کے ساتھ اٹھایا جا رہا ہے
دوسری طرف تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی بی بی سی کی خبر کی تردید کی۔
ٹوئٹر پر ایک پیغام میں انہوں نے کہا بی بی سی اردو ان چند اداروں میں شامل ہے جنہوں نے پاکستان میں فیک نیوز کے سیاسی استعمال کو نیا رخ دیا، پاکستان نے بی بی سی کو اس ضمن میں ڈوزئیر بھی دیا تھا اور یہ خبر بھی اسی پروپیگنڈے کے تسلسل کا نمونہ ہے، عمران خان نے ہمیشہ فوجی قیادت کی تنظیم کا ادراک اور احترام کیا۔
یاد رہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی اردو سروس نے 10 اپریل کی رات گئے ‘سینیچر کی رات وزیراعظم ہاؤس میں کیا ہوا تھا’ کے عنوان سے ایک خبر شائع کی تھی، مذکورہ خبر میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد سے متعلق گزشتہ روز پیش آئے واقعات کا تذکرہ شامل تھا، بی بی سی کی خبر میں کہا گیا کہ ہفتہ کے روز تمام دن گہما گہمی کا مرکز پارلیمنٹ ہاؤس رہا لیکن افطار کے وقت جب قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا گیا تو سرگرمی کا مرکز اچانک وزیراعظم ہاؤس بن گیا۔ خبر میں دعویٰ کیا گیا کہ ‘اس دوران دو بن بلائے مہمان بھی بذریعہ ہیلی کاپٹر، غیر معمولی سیکیورٹی اور چاق و چوبند جوانوں کے حصار میں وزیراعظم ہاؤس پہنچے اور وزیر اعظم سے تقریباً پونا گھنٹہ تنہائی میں ملاقات کی۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق اس ملاقات میں کیا بات ہوئی، اس کی کوئی اطلاعات دستیاب نہیں ہیں تاہم باوثوق اور معتبر سرکاری ذرائع نے جنہیں اس ملاقات کے بارے میں بعد میں معلومات فراہم کی گئیں، انہوں نے بتایا کہ یہ ملاقات کچھ زیادہ خوشگوار نہیں رہی۔خبر میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ملاقات میں موجود ایک اعلیٰ عہدیدار کو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے ایک گھنٹہ قبل ہی ان کے عہدے سے برطرف کرنے کا حکم جاری کیا تھا، اس لیے وزیر اعظم کے لیے ان مہمانوں کی یوں بن بلائے اچانک آمد غیر متوقع تھی۔
برطانوی نشریاتی اداے نے یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم توقع کر رہے تھے کہ اس ہیلی کاپٹر میں ان کے نومقرر کردہ عہدیدار وزیراعظم ہاؤس پہنچیں گے اور اس کے بعد وہ شور و غوغا مدھم پڑ جائے گا جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس سے شروع ہوا تھا۔ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ شاید ایسا ہو بھی جاتا لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ اس اعلیٰ ترین برطرفی اور ایک نئی تعیناتی کے لیے جو قانونی دستاویز (نوٹی فیکیشن) وزارت دفاع سے جاری ہونی چاہیے تھی وہ جاری نہ ہو سکی، یوں اس ’انقلابی‘ تبدیلی کی وزیراعظم ہاؤس کی کوشش ناکام ہو گئی۔
بی بی سی کا کہنا تھا ویسے اگر وزیراعظم کے حکم پر برطرفی کا یہ عمل مکمل ہو بھی جاتا تو بھی اسے کالعدم قرار دینے کا بھی بندوبست کیا جا چکا تھا کیوں کہ ہفتہ کی رات اسلام آباد ہائی کورٹ کے تالے کھولے گئے اور چیف جسٹس اطہر من اللہ کا عملہ ہائی کورٹ پہنچ گیا تھا۔ بی بی سی کے مطابق بتایا گیا کہ ہائی کورٹ ہنگامی طور پر ایک پٹیشن سماعت کے لیے مقرر کی جانے والی ہے جس میں ایک عام شہری کی حیثیت سے عدنان اقبال ایڈووکیٹ نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بری فوج کے سربراہ کی برطرفی کے ’ممکنہ‘ نوٹی فکیشن کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔
برطانوی نشریاتی ادارے کا دعویٰ تھا کہ اس فوری درخواست میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے سیاسی اور ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے بری فوج کے سربراہ کو برطرف کرنے کی سفارش کی ہے، لہٰذا عدالت اس حکم کو بہترین عوامی مفاد میں کالعدم قرار دے۔

Related Articles

Back to top button