مسلم لیگ ق پر تنقید، مونس الٰہی اور شیخ رشید آمنے سامنے

وفاقی وزیر داخلہ اور وفاقی وزیر آبی امور مونس الہٰی کے درمیان سخت جملوں کے تبادلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حکومتی اتحاد میں دراڈ نمایاں ہوگئی ہے۔وزیرداخلہ شیخ رشید نے کو ئٹہ میں پریس کانفرنس کے دواران اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ایک سوال پر کہا کہ وہ وزیراعظم کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے ہیں تاہم نام لیے بغیر پاکستان مسلم لیگ (ق) کو تنقید کانشانہ بنایا تاہم پنجاب کا حوالہ دے کر وضاحت کردی۔

شیخ رشید نے کہا کہ ‘میں عمران خان کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑا ہوں، باقی کسی کا میں ذمہ دار نہیں ہوں، میں ان لوگوں کی طرح نہیں ہوں، جن کے پاس 5،5 ووٹ ہیں اور صوبے کی وزارت اعلیٰ کے لیے بلیک میل کر رہے ہیں۔میں عمران خان کے ساتھ سایے کی طرح کھڑا ہوں، میں سچ کہہ رہا ہوں کہ ان کے لیے عمران خان نے بطور وزیراعظم کہا کہ میں سڑکوں پر آگیا تو بہت خطرناک ہوں اور واقعی خطرناک ہے۔

شیخ رشید نے صحافی کے پوچھنے پر کہ پی ٹی آئی کے اتحاد میں تین صوبوں کی حکومتیں شامل ہیں اور آپ کا کس کی طرف اشارہ ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ‘میں پنجاب کی سیاست کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور وفاقی وزیر چوہدری مونس الہٰی نے ٹوئٹر پر شیخ رشید کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ‘میں شیخ رشید صاحب کی عزت کرتا ہوں لیکن یہ بھول رہے ہیں کہ اسی جماعت کے لیڈروں کے بزرگوں سے جناب اپنی اسٹوڈنٹ لائف میں پیسے لیا کرتے تھے۔

پاکستان مسلم لیگ (ق) نے وزیراعظم عمران خان سے کہا ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے سے قبل وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے متبادل کے طور پر پرویزالہٰی کا اعلان کریں۔ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان مسلم لیگ (ق) کی قیادت نے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کی بطور وزیر اعلیٰ اعلان کرنے کا پیغام وزیراعظم تک پہنچا دیا اور اس فیصلے سے پنجاب میں جہانگیر ترین گروپ کی بغاوت کا مقابلہ کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
ذرائع نے بتایا کہ ‘اس کے جواب میں پاکستان مسلم لیگ (ق) وزیراعظم کی حمایت کا کھلے عام اعلان کرے گی اور مرکز میں اپوزیشن کے قدم روکنے کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کرے گی۔ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر وزیراعظم پنجاب میں وزیراعلیٰ کی سیٹ کے لیے چوہدری پرویز الہٰی کو نامزد کرنے کا فیصلہ وقت پر نہیں کرتے ہیں تو پاکستان مسلم لیگ (ق) دوسرے فیصلوں کے لیے آزاد ہے۔خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کی سیٹوں کی تعداد 5 ہے اور عدم اعتماد کی تحریک کے لیے بہت اہم تصور کیے جارہے ہیں۔
اسی طرح درجنوں اراکین کے حمایت یافتہ باغی گروپ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ہٹانا چاہتا ہے اور اپنے گروپ میں سے کسی کو وزیراعلیٰ بنانے کے لیے پارٹی قیادت کے ساتھ لابننگ کررہا ہے۔تاہم یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ وہ امیدوار علیم خان نہیں ہوں گے بلکہ جہانگیر خان حتمی نام کا فیصلہ کریں گے۔دوسری جانب مشترکہ اپوزیشن کے رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت کے اتحادیوں ایم کیو ایم پاکستان اور بی اے پی کے ساتھ ان کے مذاکرات میں ’نمایاں پیش رفت‘ سامنے آئی ہیں۔

Related Articles

Back to top button