عمران خان کی کچن کیبنٹ بھی ان کا ساتھ چھوڑ نے لگی

پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے پارٹی چھوڑنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اب وہ عمران خان کی کچن کیبنٹ تک پہنچ چکا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کا پارٹی چھوڑنا معمول بن گیا ہے، مگر شیریں مزاری کے بعد فواد چوہدری کا راہیں جدا کرنا اور اسد عمر کا عہدوں ست مستعفی ہو کر پارٹی قیادت چھوڑنا پی ٹی آئی کے لیے سب سے بڑا دھچکا سمجھا جا رہا ہے۔نو مئی کے واقعات کے بعد بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا، جس کے بعد بڑی تعداد میں پارٹی رہنماوں نے جماعت اور عمران خان کو خیر آباد کہا۔پی ٹی آئی کو چھوڑنے اور پنجاب میں الیکشن کے لیے جاری کردہ ٹکٹ واپس کرنے والوں کی تعداد کافی لمبی ہے اور ہر دن ملک کے مختلف حصوں سے تحریک انصاف چھوڑنے کی غرض سے کئی لوگ کی پریس کانفرنسوں کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔

سانحہ 9 مئی کے بعد تحریک انصاف کی سب سے پہلی اہم وکٹ عامر محمود کیانی کی گری تھی جن کا عمران خان اور پی ٹی آئی سے دو دہائیوں سے زیادہ کا تعلق تھا۔ عامر محمود کیانی پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل اور تحریک انصاف حکومت میں وفاقی وزیر صحت بھی رہے۔عمران خان نے زمان پارک میں پریس کانفرس کرتے ہوئے عامر کیانی کے پارٹی چھوڑنے پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔

پی ٹی آئی کے لیے دوسرا بڑا دھچکا ڈاکٹر شیریں مزاری کا پارٹی اور سیاست کو چھوڑنا تھا۔تھری ایم پی او کے تحت عدالتوں سے ضمانتوں کے باوجود چار بار گرفتار ہونے والی شیرین مزاری نے 23 مئی کو اپنی بیٹی ایمان مزاری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سیاست اور پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا۔سال 2008 میں پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بننے والی شیرین مزاری پارٹی کی سیکرٹری اطلاعات اور ترجمان بھی رہیں اور خواتین کی مخصوص نشست پر دو بار قومی اسمبلی کی رکن بنیں۔

بعد ازاں پی ٹی آئی کی زبان سمجھے جانے والے فواد چوہدری نے بھی بدھ کی شام پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان سے راہیں جدا کرنے کا اعلان کر دیا۔ اسے پارٹی کے لیے بڑا نقصان سمجھا جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے مستعفی ہیڈ آف میڈیا افیئرز فواد چودھری نے گزشتہ 15 سال کے دوران چوتھی سیاسی پارٹی سے علیحدگی اختیار کی ہے۔سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے 2008 کے بعد مرحوم صدر پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور اسی دوران وہ ان کے ترجمان بھی رہے۔فواد چودھری نےمارچ 2012 میں آل پاکستان مسلم لیگ سے مستعفی ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد انہیں سابق وزیراعظم یوسف سید رضا گیلانی کا معاون خصوصی برائے اطلاعات و سیاسی امور مقرر کیا گیا۔فواد چودھری نے اپنے سیاسی سفر کے دوران کچھ عرصے کےلیے پاکستان مسلم لیگ (ق) میں بھی شمولیت اختیار کی تھی۔جون 2016 میں فواد چودھری نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی

عامر کیانی، شیریں مزاری اور فواد چودھری نے پی ٹی آئی کے علاوہ سیاست سے بھی علیحدگی کا اعلان کیا مگر فواد چوہدری نے سیاست سے علیحدگی کے لیے وفقے کا لفظ استعمال کیا۔ایک دن قبل پنجاب کے سابق صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے نہ صرف پارٹی کو چھوڑا بلکہ الزام لگایا کہ عمران خان زوم اجلاسوں میں فوج کے خلاف بات کرنے کی تلقین کرتے تھے۔

پی ٹی آئی کے دور حکومت میں عمران خان کی کابینہ کا حصہ رہنے والے ملک امین اسلم بھی پارٹی کو خیر آباد کہہ چکے ہیں۔پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے بدھ کی رات پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو چھوڑنے کے بجائے اس کے عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔اسد عمر کا شمار ان چند رہنماؤں میں کیا جاتا ہے جو عمران خان کی کچن کیبنٹ کا حصہ تھے اور وہ بغیر کسی دباؤ یا خوشامد کے پارٹی چئیرمین کو مخلصانہ مشورے دیا کرتے تھے۔جب کبھی تحریک انصاف میں عمران خان کی جانشین کی بات ہوتی تب اسد عمر اس فہرست میں شامل ہوتے تھے مگر اب وہ پارٹی عہدوں سے علیحدگی کا فیصلہ اور اعلان کرچکے ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ وہ اب بھی پاکستان تحریک انصاف کا حصہ ہیں۔

ایسے میں جب پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے مسلسل پارٹی چھوڑنے اور سیاست سے علیحدگی کے اعلانات سامنے آرہے ہیں، ایسے میں پارٹی کے سیکرٹری جنرل کے صرف پارٹی کے عہدوں سے مستعفی ہونے کے اعلان کو ماسٹر سٹروک اور پی ٹی آئی کی نئی حکمت عملی قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ اسد عمر کے صرف پارٹی عہدے چھوڑنے کے اعلان سے تحریک انصاف کو کیا فائدہ ہوگا؟اسد عمر نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران اس بات پر زور دیا کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو سیاسی مذاکرات کے ذریعے بحران کا حل نکالنے کی ضرورت ہے۔خیال رہے کہ اسد عمر کا شمار پی ٹی آئی کے ان رہنماؤں میں کیا جاتا ہے جو چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے جانشین کے طور پر سمجھے جاتے ہیں، پارٹی کے اندر تنظیمی سطح پر بھی تحریک انصاف کے اکثر کارکنان اسد عمر کو پارٹی کا چہرہ سمجھتے ہیں۔موجودہ سیاسی صورتحال میں اسد عمر سیاسی مذاکرات اور جوڑ توڑ کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مشکلات میں گھری پارٹی کو باہر نکالنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

دوسری طرف شاہ محمود قریشی نے ضمانت کے بعد دوبارہ گرفتاری سے پہلے اعلان کیا کہ وہ پارٹی نہیں چھوڑ رہے۔کراچی سے پی ٹی آئی کے رکن علی زیدی نے گرفتاری سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی نہ چھوڑنے کا اعلان کیا تھس جبکہ خیبر پختون خوا سے سابق رکن قومی اسمبلی عثمان تراکئی اور سابق ترجمان خیبر پختون خوا حکومت اجمل وزیر بھی پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔

سانحہ 9 مئی کی سازش زمان پارک میں تیار ہونے کا انکشاف

Related Articles

Back to top button