ترکی کی مدد سے علیحدگی پسند بلوچ کمانڈر گلزار امام کی گرفتاری

رواں برس وجود میں آنے والی نئی بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ نیشنلسٹ آرمی کو تب ایک بڑا دھچکا لگا جب پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے ترک حکام کی مدد سے بی این اے کے سربراہ گلزار امام کو گرفتار کر لیا۔ بتایا جاتا ہے کہ بلوچ کمانڈر ایران کے راستے ترکی پہنچا تھا جہاں اسے گرفتار کر۔کیا گیا۔ گلزار امام کی گرفتاری کو بلوچ علیحدگی پسند تحریک کے لیے ایک دھچکہ قرار دیا جا رہا ہے وہیں دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند رہنما کی گرفتاری سے بلوچ مسلح تحریک پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑے گا۔ ماہرین نے سال 2018 میں کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے کے ماسٹر مائنڈ اسلم بلوچ عرف اچھو کی افغانستان کے شہر قندھار میں ہلاکت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بی ایل اے کا دھڑا اسلم اچھو کے جانشین بشیر زیب کی قیادت میں کمزور ہونے کی بجائے مزید منظم ہوا ہے۔

یاد رہے کہ بی این اے نے رواں برس جنوری میں اپنے قیام کے چند روز بعد ہی لاہور کے انار کلی بازار میں بم دھماکے کی ذمے داری قبول کرکے اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کیا تھا۔ رواں برس 20 جنوری کو لاہور کے انار کلی بازار میں موٹر سائیکل پر نصب بم پھٹنے سے تین افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بی این اے نے اس کارروائی کی ذمے داری قبول کی تھی۔

گلزار امام کی گرفتاری کی خبریں دو ماہ قبل ستمبر کے وسط سے ہی سامنے آ رہی تھیں۔ اطلاعات تھیں کہ اُنہیں ایران سے ترکیہ پہنچنے پر حراست میں لے کر پاکستانی حکام کے حوالے کیا گیا تھا۔ لیکن اب بی این اے کے ترجمان مرید بلوچ نے ایک اعلامیے میں تصدیق کر دی ہے کہ گلزار امام پاکستان کے خفیہ اداروں کی تحویل میں ہیں۔ بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی حامی ویب سائٹس کو جاری اعلامیے میں بی این اے کی طرف سے کہا گیا ہے کہ کچھ عرصہ قبل گلزار امام عرف شمبے لاپتا ہوئے تھے جس پر تنظیم نے تحقیقات کیں۔ مصدقہ شواہد سے معلوم ہوا ہے کہ وہ لاپتا ہونے کے بعد سے پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی حراست میں ہیں۔ اعلامیے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ گلزار احمد کی گرفتاری کہاں، کب اور کیسے ہوئی۔ لیکن کوئٹہ میں تعینات ایک اعلٰی انٹیلی جنس افسر نے بتایا کہ گلزار احمد کو ایران سے ترکی پہنچنے پر وہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حراست میں لیا اور پاکستان کے حوالے کر دیا۔

بلوچستان کے شہر پنجگور سے تعلق رکھنے والے گلزار امام نے سیاست کا آغاز 2002 میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ‘امان’ نامی ایک دھڑے سے کیا تھا۔ انہیں برسوں میں جب بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے تین دھڑوں کا انضمام اور اس کے بعد دوبارہ ٹوٹ پھوٹ شروع ہوئی، تو گلزار امام بلوچ علیحدگی پسند رہنما بشیر زیب کی قیادت میں بننے والے ایک دھڑے میں شامل ہو گئے۔ بشیر زیب آج کل بلوچ لبریشن آرمی کے ایک دھڑے کے سربراہ ہیں۔

2008 میں بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کو افرادی قوت فراہم کرنے کے الزامات کے سبب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بی ایس او (آزاد) کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا تھا۔ اس دوران گلزار امام نے بلوچ عسکریت پسند رہنما براہمداغ بگٹی کی تنظیم بلوچ ری پبلکن آرمی میں شمولیت اختیار کی اور کچھ عرصے بعد ہی انہیں بی آر اے مکران ریجن کا کمانڈر بنا دیا گیا۔ براہمداغ بگٹی ممتاز بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کے پوتے ہیں جو بلوچ ری پبلکن آرمی کے ساتھ ساتھ بلوچ ری پبلکن پارٹی نامی تنظیم کے سربراہ بھی ہیں ۔

2006 میں ایک فوجی آپریشن میں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد براہمداغ بگٹی افغانستان منتقل ہو گئے تھے جہاں سے کچھ عرصے بعد وہ سوئٹزرلینڈ چلے گئے۔ 2018 کے وسط میں گلزار امام کے براہمداغ بگٹی کے ساتھ مختلف معاملات پر اختلافات شدت اختیار کر گئے تھے جس میں ایک اہم وجہ طبقے کی بنیاد پر قیادت تھی۔ اکتوبر 2018 میں بی آر اے کی جانب سے ایک اعلامیے میں گلزار امام پر ماورائے عدالت قتل اور بھتہ وصولی میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں تنظیم سے نکالے جانے کا اعلان کیا گیا۔ یوں بی آراے دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک دھڑے کی سربراہی براہمداغ بگٹی جب کہ دوسرے دھڑے کی سربراہی گلزار امام کر رہے تھے۔ بی آر اے میں دھڑے بندی کے بعد گلزار امام نے ایک بیان میں یورپ میں مقیم براہمداغ بگٹی، حربیار مری اورمہران مری کا نام لیے بغیر بلوچ شورش میں شامل سرداروں پر کڑی تنقید کی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ "بلوچ تحریک کی وہ قیادت جو سردار گھرانوں پر مشتمل ہے، انہیں کارکنان کے ساتھ قبائلی رویہ برتنا ترک کرنا پڑے گا اور تنظیم کے اندر موجود مسائل کا حل قبائلی نہیں بلکہ سیاسی طریقۂ کار سے نکالنا پڑے گا۔

مبصرین کے مطابق اپنے دھڑے کی تشکیل کے بعد گلزار امام مکران کی سطح پر خصوصاً پنجگور میں ایک اہم علیحدگی پسند رہنما کے طورپر ابھر کرسامنے آئے جب کہ براہمداغ بگٹی کا دھڑا کافی کمزور ہوا۔ گلزار امام نے بی آر اے کے اپنے دھڑے کو بلوچ راجی آجوئی سنگرنیا براس نامی مشترکہ محاذ کا بھی حصہ بنایا جو جولائی 2020 میں پاکستان میں سیکیورٹی اداروں اور چینی مفادات کو نشانہ بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ براس میں بلوچ علیحدگی پسند لیڈر اللہ نذر بلوچ کی بلوچ لبریشن فرنٹ، بشیر زیب کی بلوچ لبریشن آرمی، گلزار امام بلوچ کی ری پبلکن آرمی اور بختیار ڈومکی کی بلوچ ری پبلکن گارڈز نامی چار تنظیمیں شامل تھیں۔

رواں ماہ 11جنوری کو دو بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں گلزار امام کی بی آر اے اورسرفراز بنگلزئی کی قیادت میں قائم یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے ایک دھڑے نے انضمام کرکے بی این اے نام کی ایک نئی علیحدگی پسند تنظیم کے قیام کا اعلان کیا تھا۔یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے سربراہ مہران مری ہیں جو بی ایل اے کے ایک دھڑے کے سربراہ حربیار مری کے بھائی اوربلوچ قوم پرست رہنما سردار خیربخش مری کے بیٹے ہیں۔ براہمداغ بگٹی اور حربیار مری کی طرح مہران مری بھی یورپ میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بی این اے کی تشکیل کے اعلان کے موقع پر یہ بھی کہا گیا کہ نئی تشکیل کردہ تنظیم براس نامی اتحاد کا حصہ ہوگی۔

Related Articles

Back to top button