جسٹس بندیال نے آئین اور قانون کا جنازہ کیسے نکالا؟

اعلی عدلیہ سے متعلقہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کیلئے قائم جوڈیشل کمیشن کو مزید کارروائی سے روکنے کے بعد ایک بار پھر پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ آمنے سامنے آ گئے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی آڈیو لیکس کمیشن کو چیف جسٹس سپریم کورٹ کی جانب سے معطل کیے جانے پر جہاں ملک کے قانونی، سیاسی اور صحافتی حلقوں میں بالعموم حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ وہیں اب حکومت آڈیو لیکس کی تحقیقات، سپریم کورٹ کے فیصلے پر قومی اسمبلی میں قرارداد کی صورت میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور پارلیمنٹ کے ارکان قومی اسمبلی، عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی مذمت اور نامنظوری کے لیے ایوان میں قرارداد لانے پر غور کر رہے ہیں اور قومی اسمبلی عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر قانونی غور و خوض کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنانے پر غور کر رہی ہے۔

اس حوالے سے سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنوردلشاد کا اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کہنا ہے کہ آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل انکوائری ایکٹ 1956 کے مطابق بالکل قانونی تھی۔ جب چیف جسٹس کی ساس صاحبہ اور ایک معروف وکیل کی بیگم صاحبہ کا معاملہ آیا اور ساس صاحبہ نے آڈیو میں جسٹس منیب کا بھی ذکر کیا تو انصاف کا تقاضہ یہ تھا کہ چیف جسٹس اس کیس کو نہ سنتے۔عدالتی ضابطہ اخلاق کے مطابق جسٹس منیب کو بھی اس کیس میں نہیں بیٹھنا چاہیے تھا جب کہ چیف جسٹس نے کمیشن معطل کر کے خود کو متنازع بنا لیا۔ حکومت اور چیف جسٹس کے درمیان عدم اعتماد بہت زیادہ بڑھ چکا ہے اور بڑے ادب سے رائے دی جا سکتی ہے کہ ماضی اور حال کے تمام فیصلوں کو مدنظر رکھا جائے تو محترم چیف جسٹس نے عدلیہ کو کمزور کیا ہے۔

کنور دلشاد کا مزید کہنا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ آڈیو لیکس پر انکوائری کمیشن قانون کے تحت تشکیل دیا گیا، سپریم کورٹ ہائی کورٹس کی نگرانی نہیں کر سکتی اور بغیر نوٹس کمیشن کیسے معطل ہوا، جب کہ قواعد کے مطابق فریقین کو سن کر فیصلہ کیا جاتا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ پتہ توچلے کہ کون آڈیوز جاری کر رہا ہے؟ یہ اصلی ہیں بھی یا نہیں؟ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی جج پر الزام ہو تو ایسے ہی چلنے دیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلے میں ایک بہت اہم جملہ لکھا تھا جس پر حکومت اور مقتدر حلقوں کو غور کرنا ہوگا۔ انہوں نے لکھا کہ چیف جسٹس کے فیصلے سے بظاہر فیڈرل ازم کو تباہ کیا گیا۔

بادی النظر میں اگر آئین، قانون اور ریاست کے مفاد کو دیکھا جائے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الارم کر دیا کہ سپریم کورٹ کے سربراہ نے فیڈریشن کو کمزور کیا ہے۔ایسے عدالتی، آئینی، قانونی اور ریاستی معاملات میں جب سنگین صورت حال پیدا ہو جائے تو صدر مملکت جو ریاست کا رسمی سربراہ ہوتا ہے نیک نیتی سے پارلیمان اور عدلیہ کے تصادم کا مثبت حل تلاش کرنے کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔اس کے برعکس ہمارے صدر مملکت بگڑتے حالات میں بامقصد اقدامات، جس سے وفاق مستحکم ہونا تھا، کرنے سے قاصر ہیں۔وہ ملک و قوم کو متحد کرنے والی قوت کے طور پر کام کرنے کی بجائے زمان پارک کے مخصوص مکین کے ساتھ مل کر ان کے غیر آئینی اقدام کی حمایت کر رہے ہیں۔انہیں احساس نہیں کہ عمران خان عسکری قیادت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور بطور سپریم کمانڈر صدر مملکت کو عمران خان کی بازپرس کرنی چاہیے تھی۔انہیں احساس نہیں کہ ملک خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ گیا اور سیاسی کشیدگی کم کرنے کے لیے وہ آئین کے آرٹیکل فائیو کے تحت قومی رہنماؤں کو ایک میز پر لا سکتے تھے اور عمران خان کو بھی اس کانفرنس میں صدارتی حکم کے تحت لا سکتے تھے، لیکن انہوں نے ایسا کرنے کی بجائے پارٹی مفادات کو مدنظر رکھا۔

کنور دلشاد کے بقول وفاقی حکومت اور آڈیو لیکس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس بھجوایا جا سکتا تھا، آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا تھا کہ آڈیو لیکس کے حوالے سے حکومت

عمران کی 9 مئی کی چول کا اصل منصوبہ ساز کون تھا؟

کی رہنمائی کی جائے۔

Related Articles

Back to top button