جعلی پے آرڈر کے ذریعے لوگوں کو لوٹنے کا دھندا عروج پر

آن لائن گاڑیوں کا کاروبار کرنے والے جرائم پیشہ عناصر جعلی پے آرڈرز کے ذریعے سادہ لوح افراد کو لوٹنے لگے ہیں، زیادہ تر وارداتیں پنجاب میں سامنے آ رہی ہیں، جعلسازوں کا طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ چھٹی کے روز گاہک سے گاڑی کا سودا کرتے ہیں تاکہ پے آرڈر کی بینک سے تصدیق نہ ہو سکے اور انہیں فرار ہونے میں مناسب وقت مل جائے۔ اسلام آباد کے رہائشی ڈاکٹر عمران اللہ خان ایک مقامی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں، انہوں نے ایک آن لائن ویب سائٹ پر اپنی نئی رجسٹرڈ گاڑی ہونڈا سٹی ایسپائر کی فروخت کا اشتہار دیا اور ڈیل طے ہونے پر ایک پارٹی کو 45 لاکھ 80 ہزار میں ’فروخت‘ کر دی۔
خریدار نے عمران کے گھر آ کر گاڑی کی فروخت کا معاہدہ طے کیا۔ اشٹام پیپرز پر فریقین کے دستخط ہوئے اور خریدار موصوف انہیں مقامی بینک کا پے آرڈر دے کر اسکے عوض گاڑی لے کر روانہ ہو گئے، ڈاکٹر عمران اگلے دن پے آرڈر لے کر بینک پہنچے تو ان کے پیروں تلے زمین نکل گئی جب انہیں معلوم ہوا کہ پے آرڈر جعلی تھا اور ان کے ساتھ فراڈ ہو گیا۔

لیکن ڈاکٹر عمران اس فراڈ کے شکار اکیلے فرد نہیں بلکہ اسلام آباد کے سہیل اختر کے ساتھ گزشتہ سال اپریل میں بالکل ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا، ایک آن لائن ویب سائٹ پر جب انہوں نے اپنی ان رجسٹرڈ گاڑی ہونڈا ویزل کا اشتہار دیا تو اگلے دن ان سے فون پر رابطے کے بعد ایک ادھیڑ عمر شخص حاجی احسان کے نام سے ملا جو خود کو این ڈی یو سے منسلک پروفیسر بتاتا تھا۔

اس شخص نے اپنے ساتھ ایک اور شخص بھی لایا اور اس کا تعارف بطور کلرک کروایا۔ سہیل اختر کے مطابق وہ شخص حلیے سے کسی کھاتے پیتے گھر کا لگتا تھا اور بہت اچھا پرفیوم بھی لگا رکھا تھا، دو تین دن بعد پھر شام کو ساڑھے چار بجے کے بعد وہ گاڑی خریدنے آیا اور اپنے ساتھ راجہ نامی ایک اور شخص بھی لایا جو بعد میں پتا چلا کہ ماسٹر مائنڈ تھا، بلیو ایریا میں یہ سب لوگ اشٹام فروش کے پاس گئے جہاں شام چھ بجے کے قریب معاملات طے ہوئے اور اسے 47 لاکھ کا پے آرڈر پکڑا دیا گیا، سہیل کے مطابق اسے تھوڑا تامل ہوا کہ پے آرڈر کیش ہونے تک اپنے کاغذات انہیں نہ دے مگر ملزمان نے اسے مطمئن کیا کہ پے آرڈر تو کیش ہی ہوتا ہے، آپ کو پریشانی کس بات کی ہے۔

ملزمان اتنے ماہر تھے کہ سلک بینک کا کچھ ماہ پرانا اصلی پے آرڈر نمبر استعمال کیا اور پے آرڈر کا ڈیزائن بھی ہو بہو اصلی جیسا تھا۔ بعد میں سہیل نے نادرا کے ذریعے پتا کروایا تو ان کے تمام شناختی کارڈرز جعلی نکلے۔ لیکن پولیس نے 48 گھنٹے تک ایف آئی آر درج نہ کی، سہیل نے حساس اداروں کی مدد سے باآلاخر ملزمان کو گرفتار کروا دیا تو معلوم ہوا کہ ان کا راجہ نامی ماسٹر مائینڈ اسلام آباد اور راولپنڈی کا کئی مقدمات میں اشتہاری ہے۔

سہیل اختر کا کہنا تھا کہ اب وہ سوچتے ہیں کہ دیگر صارفین کو نصیحت کریں گے کہ کبھی کسی پے آرڈر پر یقین نہ کریں جب تک کہ بینک میں آپ کے سامنے بنوا کر دیا جائے، پے آرڈرز اور بینک انسڑومنٹس کے ذریعے زیادہ تر فراڈ شام کے وقت یا چھٹی کے دن ہوتے ہیں تاکہ بینک سے فوری چیک نہ کیا جا سکے، اس کے علاوہ ماہرین کے مطابق ایک عام آدمی کے لیے بینک سے فون پر کسی پے آرڈر وغیرہ کا چیک کرنا مشکل ہے کیونکہ یہ کسٹمر پرائیویسی کے زمرے میں آتا ہے اور بینکس عموماً اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کی معلومات دوسروں سے شئیر نہیں کرتے۔ ایک تجربہ کار بینکر راشد مسعود عالم نے بتایا کہ اس طرح کے فراڈ کا پتا لگانا عام آدمی کے لیے بہت مشکل ہے، اس طرح کی دستاویزات کی تصدیق جب تک جاری کرنے والے بینکوں سے نہ کی جائے، ان کی کوئی حثییت نہیں ہوتی چونکہ بینک خود کسی شخص سے اپنے صارف کا ڈیٹا شئیر نہیں کرتے ہیں۔

اس کا ایک طریقہ یہ رہ جاتا ہے کہ جو شخص پے آرڈر دے رہا ہے وہ خود بینک سے تصدیق کروا کر دے یا پھر خریدار خود ساتھ بینک جائے اور تصدیق کرلے، دوسرا حل یہ ہے کہ پے آرڈر وغیرہ کیش ہونے تک خریدار کو گاڑی وغیرہ کے کاغذات نہ دیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے فراڈز کراچی میں کم ہیں مگر اسلام آباد اور پنجاب سے شکایات زیادہ ہیں۔ سٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے اس طرح کی شکایات آ رہی ہیں تاہم اس حوالے سے سٹیٹ بینک کا کردار تب آتا ہے اگر بینک اس میں ملوث نکلیں، فراڈ کے زیادہ تر کیسز میں جعلی پے آرڈر، بینک ڈرافٹس یا چیک استعمال کیے جاتے ہیں، اس لیے اس میں سٹیٹ بینک کے ایکشن کے بجائے پولیس کیس بنتا ہے، عابد قمر کا کہنا تھا سٹیٹ بینک پاکستان میں کام کرنے والے تمام بینکوں کو بہرحال گائیڈ لائنز جاری کرتا رہتا ہے تاکہ صارفین کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جائیں۔

Related Articles

Back to top button