جنرل باجوہ، فیض حمید اور عمران خان شریک مجرم کیوں ہیں؟

معروف ٹی وی اینکر اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ آرمی کمان میں تبدیلی کے بعد تحریک انصاف نے سوشل میڈیا پر جنرل قمر باجوہ کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کرتے ہوئے یہ تاثر دیا ہے کہ تمام مسائل کے ذمہ دار باجوہ صاحب تھے حالانکہ بہت سارے معاملات میں عمران خان براہ راست جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے ساتھ شریک گناہ ہوتے تھے۔

 

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ آرمی بینڈ کی خوبصورت دھنیں بج رہی تھیں۔ بالآخر آرمی کمان میں تبدیلی کی تقریب شروع ہو چکی تھی۔ صحافیوں کے انکلوژر میں ڈاکٹر شاہد مسعود کو دیکھ کر مجھے بہت سے واقعات یاد آنے لگے۔یہ وہ واقعات ہیں جو ان چھ برسوں میں پیش آئے جب جنرل قمر باجوہ فوج کے سربراہ تھے۔ یہ واقعات باجوہ صاحب بھول سکتے ہیں لیکن ہم نہیں بھول سکتے۔ 2018 کے دھاندلی زدہ الیکشن کے بعد عمران خان کو وزیر اعظم بنوایا گیا تو کچھ عرصے کے بعد ٹی وی اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کو پی ٹی وی کے فنڈز میں گڑبڑ کرنے کے الزام میں گرفتار کر کے اڈیالہ جیل پنڈی بھجوا دیا گیا۔ ایک رو ز میں انہیں ملنے اڈیالہ جیل گیا تو پتہ چلا کہ انہیں ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اگلے ہی دن میں وزیر اعظم عمران خان کے پاس پہنچ گیا اور گزارش کی کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کو ایف آئی اے ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کرتی ہے، ان کے خلاف مقدمے کا فیصلہ عدالت کریگی لیکن آپ انہیں ہتھکڑیاں تو نہ لگوایا کریں۔خان صاحب نے پہلے تو حیرانی سے پوچھا ’’شاہد مسعود کب پکڑا گیا؟ مجھے تو پتہ ہی نہیں، پھر فوراً ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن سے فون پر بات کی اور کہا کہ حامد میر پہلی دفعہ کوئی کام لیکر آیا ہے  آپ شاہد مسعود کو ہتھکڑیاں نہ لگایا کریں۔

 

حامد میر بتاتے ہیں کہ میں خان صاحب کے فون سے مطمئن ہو کر واپس آگیا۔ دو دن بعد ڈاکٹر صاحب کو پھر عدالت میں پیش کیا گیا تو جانتے ہیں کیا ہوا؟ پہلے تو ڈاکٹر صاحب کے ایک ہاتھ میں زنجیریں ڈالی جاتی تھیں لیکن میری سفارش کے بعد انکے دونوں ہاتھوں میں زنجیریں ڈال دی گئیں۔ ظاہر ہے مجھے بہت شرمندگی ہوئی، میں نے معلوم کیا کہ وزیر اعظم کے احکامات کو اتنے رعونت آمیز طریقے سے کیوں نظر انداز کیا گیا تو مجھے بتایا گیا کہ آپ نے غلط آدمی سے سفارش کردی، آپ کو وزیراعظم سے نہیں آرمی چیف سے بات کرنی چاہئے تھی۔ چند روز بعد افغانستان کی صورتحال پر ایک بریفنگ تھی جس میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ بھی موجود تھے۔ میں نے شاہد مسعود کیلئے ان سے بات کی تو ارشد شریف نے بھی میری تائید کر دی۔ باجوہ صاحب نے پہلے تو ناگواری کا اظہار کیا اور شاہد مسعود پر خوب غصہ نکالا اور پھر کچھ دیر بعد نرم پڑ گئے۔ چند دن بعد ڈاکٹر صاحب کو رہا کردیا گیا۔ اس کے بعد بھی ایسے کئی واقعات پیش آئے جن کے بارے میں عمران خان لاعلمی کا اظہار کرتے۔

 

حامد میر بتاتے ہیں کہ عرفان صدیقی گرفتار ہوئے تو عمران خان نے مجھے پیغام بھیجا کہ میرا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ مطیع اللہ جان کو اغوا کیا گیا تو کہا گیا کہ وزیر اعظم نے کبھی کسی صحافی کو اغوا کرنے یا نوکری سے نکالنے کا حکم نہیں دیا۔ 29 نومبر کو پاکستان آرمی کی کمان میں تبدیلی کے بعد تحریک انصاف کی قیادت نے سوشل میڈیا پر جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کر دیا اور یہ تاثر دیا کہ پاکستان کے تمام مسائل کے ذمہ دار باجوہ صاحب تھے حالانکہ یہ درست نہیں ہے۔ بہت سارے معاملات میں عمران خان براہ راست باجوہ صاحب کے ساتھ شریک گناہ ہوتے تھے اور ایسا بھی ہوتا کہ خان صاحب اپنے چہیتے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ذریعہ کوئی واردات ڈلواتے اور ہم اسکا ذمہ دار جنرل باجوہ کو سمجھتے۔ سب سے پہلے تو یہ جان لیجئے کہ عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے عہدے پر جنرل باجوہ نے نہیں بلکہ شہباز شریف نے بٹھایا۔ اگر شہباز اپنے بھائی نواز شریف کے خلاف بغاوت کر دیتے تو 2018ء میں انہیں وزیراعظم بننا تھا۔ شہباز کے انکار کے بعد جنرل باجوہ کے پاس کوئی چوائس نہ رہی، انہوں نے عمران کو جیسے تیسے اکثریت تو دلوا دی لیکن حکومت سازی کیلئے نمبرز پھر بھی پورے نہ تھے۔ عمران کو مرکز اور پنجاب میں سارے نمبرز جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے پورے کرکے دیئے۔ یہی وجہ تھی کہ عمران خان کو جنرل باجوہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے اچھے آرمی چیف لگتے تھے جن کی تعریف میں خان صاحب زمین اور آسمان ایک کر دیا کرتے تھے۔

 

حامد میر بتاتے ہیں کہ عمران خان اور جنرل باجوہ نے مل کر کرتار پور راہداری کھولی۔کشمیری حریت پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی نے بار بار خبردار کیا کہ مودی سرکار پر اندھا دھند اعتماد مت کرو لیکن گیلانی صاحب کی کسی نے نہ سنی۔ کوئی مانے نہ مانے لیکن تاریخ میں یہ لکھا جا چکا ہے کہ جب 5 اگست 2019 کو مودی سرکار نے مقبوضہ جموں و کشمیر پر آئینی قبضہ کیا تو عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم اور جنرل قمر باجوہ آرمی چیف تھے۔ ہزاروں پاکستانی شہریوں اور فوجی جوانوں کی قاتل تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور معاہدہ کرنے کا فیصلہ بھی عمران خان اور جنرل باجوہ نے مل کر کیا لیکن نتیجہ الٹ نکلا۔ عدالتوں سے سزا یافتہ ٹی ٹی پی جہادی مسلم خان کو صدر عارف علوی سے معافی بھی عمران نے دلوائی، لیکن جب امن قائم نہ ہوا تو ذمہ داری فوج پر ڈال دی گئی۔ پچھلے دور حکومت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ساتھ جو سلوک ہوا اس میں جنرل باجوہ، جنرل فیض اور عمران خان ساتھ ساتھ تھے۔علی وزیر اور گلالئی اسماعیل کے خلاف کارروائیاں عمران خان کی مرضی سے ہوئیں۔ آج جو لوگ کینیا میں ارشد شریف کے قتل کا الزام جنرل قمر باجوہ پر لگاتے ہیں وہ سویڈن میں ساجد بلوچ اور کینیڈا میں کریمہ بلوچ کے پراسرار قتل پر خاموش نہ رہتے تو شاید آج پاکستان میں صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کے ساتھ وہ کچھ نہ ہو رہا ہوتا جس کے باعث تحریک انصاف نے 29 نومبر کو یوم نجات قرار دیا۔ اگر تحریک انصاف ابصار عالم اور اسد طور کے زخموں کا مذاق نہ اڑاتی تو آج اعظم سواتی اور شہباز گل کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر واویلے کی نوبت نہ آتی۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کا کریڈٹ تو تحریک انصاف والے خود لیتے ہیں اور فوج کو بدنام کرنے کا ذمہ دار جنرل باجوہ کو قرار دیتے ہیں۔ یہ مت سمجھیں کہ اچھے کاموں کا کریڈٹ آپ لے جائیں گے اور بدنامی صرف باجوہ صاحب کو ملے گی۔آپ کو اچھائی اور برائی دونوں میں حصہ دار بننا پڑے گا۔آپ نے جو نفرتوں کی آگ بھڑکائی ہے اس میں صرف دوسروں کے گھر نہیں جلیں گے بلکہ اس آگ کا مزہ آپ کو بھی چکھنا پڑے گا اب بھی وقت ہے، مزید آگ مت لگائیے، ورنہ زیادہ نقصان آپ ہی اٹھائیں گے۔

Related Articles

Back to top button