جنرل باجوہ کا دیا ہوا مراسلہ عمران نے سازشی خط کیسے بنایا؟

معروف اینکر پرسن اور سیاسی تجزیہ کار جاوید چودھری نے کہا ہے کہ عمران خان نے جس خط کو اپنے 27 مارچ کے پریڈ گراؤنڈ کے جلسے میں لہرا کر امریکی سازش کا ثبوت قرار دیا تھا اسکی کاپی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے عمران کو صرف سمجھانے کے لیے دی تھی لیکن انہوں نے اسی خط کو بنیادی بنا کر سازشی بیانیے کا شور شروع کر دیا۔
اپنی تازہ تحریر میں جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ عمران نے پریڈ گراؤنڈ کے جلسے میں جو مراسلہ لہرایا تھا، وہ کسی امریکی کا نہیں بلکہ واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید خان کا لکھا ہوا تھا۔ اس خط کی بیک گراؤنڈ بتاتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ امریکا میں پاکستان کے سفیر اسد مجید 7 مارچ کو الوداعی میٹنگ کے لیے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری ڈونلڈ لو سے ملے، یہ میٹنگ لنچ پر ہوئی، پاکستانی سفیر نے ڈونلڈ لو سے گلہ کیا ’’میں اس افسوس کو اپنے ساتھ لیے واپس جا رہا ہوں کہ آپ نے صدر بائیڈن کی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ٹیلی فون پر بات نہیں کرائی‘‘۔
جواب میں ڈونلڈ لو نے عمران کی وہ ساری تقریریں، بیان اور ٹویٹس دہرا دیئے جو انہوں نے امریکا کے خلاف جاری کیے تھے اور اس کے بعد کہا کہ آپ لوگ الیکشن کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی سپورٹ کرتے رہے لہٰذا میں کس منہ سے صدر بائیڈن سے عمران کو فون کرنے کا کہتا، بہرحال پاکستان میں اگر عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے اور نیا وزیراعظم آ جاتا ہے تو میں کوشش کروں گا امریکی صدر کے فون کے لیے۔ جاوید چودھری کے بقول پاکستانی سفیر اسد مجید نے ایمبیسی واپس آ کر ڈونلڈ لو سے اپنی ملاقات کا احوال لکھ کر بھجوا دیا۔
ایکسپریس نیوز سے وابستہ معروف اینکر پرسن بتاتے ہیں پاکستانی فارن سیکرٹری سہیل محمود نے پروسیجر کے مطابق مراسلہ وزیراعظم ہاؤس‘ آئی ایس آئی اور جی ایچ کیو بھجوا دیا۔ مراسلہ جی ایچ کیو کے پراسیس سے ہوتا ہوا آرمی چیف جنرل باجوہ تک پہنچ گیا۔ 11 مارچ کو کامرہ ائیربیس میں جے 10سی لڑاکا طیاروں کی لانچنگ کی تقریب تھی۔ وزیر اعظم عمران خان بھی اس تقریب میں مدعو تھے، آرمی چیف نے تقریب کے دوران مراسلہ عمران خان کو دکھایا اور ان سے کہا ’’سر میں آپ سے بار بار درخواست کر رہا تھا‘ آپ ہاتھ ہلکا رکھیں، سفارتی تعلقات نازک ہوتے ہیں، آپ بھی یہ مراسلہ دیکھ لیں‘‘۔
جاوید کے بقول عمران خان نے خط پر نظر دوڑائی‘ اسے تہہ کر کے جیب میں رکھا اور کہا ’’جنرل صاحب آپ اسے چھوڑیں‘ اس قسم کے خط آتے جاتے رہتے ہیں‘‘۔ وزیر اعظم نے اس دن دیر میں جلسے سے خطاب کرنا تھا‘ وہ تقریب سے جلدی جلسے کو خطاب کرنے کے لیے روانہ ہونا چاہتے تھے‘ آرمی چیف نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ ’’سر آپ لیڈر ہیں، آپ وزیر اعظم ہیں، آپ دوسرے لیڈرز کو بُرے ناموں سے نہ پکارا کریں، مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل کہنا زیادتی ہے، آپ افہام و تفہیم کی بات کیا کریں‘‘۔
وزیراعظم نے ہاں میں سر ہلایا لیکن جلسے میں جا کر کہہ دیا کہ ’’میری ابھی جنرل باجوہ سے بات ہو رہی تھی‘ انہوں نے کہا فضل الرحمان کو ڈیزل کہنا بند کر دو‘ لیکن میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ فضل الرحمن کو ڈیزل میں تو نہیں کہتا لیکن جیسے ہی جلسے سے خطاب شروع کرتا ہوں لوگ ڈیزل ڈیزل کے نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں، یعنی عوام نے اس کا نام ڈیزل رکھ دیا ہے‘‘۔ عمران کی یہ تقریر سن کر جنرل باجوہ نے سر پکڑ لیا، لیکن کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی، عمران خان نے 27 مارچ کو پریڈ گراؤنڈ کے جلسے میں وہی خط لہرا دیا جس کی کاپی آرمی چیف نے انہیں صرف سمجھانے کے لیے دی تھی اور یہاں سے سازشی بیانیے کا شور شروع ہو گیا۔

Related Articles

Back to top button