جنرل باجوہ کا ٹیکس ڈیٹا لیک کرنے والے FBR افسران پکڑے گئے

سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے خاندان کے ٹیکس ریکارڈ، اثاثوں اور جائیداد کے لیک ہونے پر وزیر خزانہ کی جانب سے کروائی جانے والی انکوائری کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے دو سینیئر افسران کو چار ماہ کے لیے معطلی کی سزا سنائی گئی یے جن پر ڈیٹا لیگ کرنے کا الزام ثابت ہو گیا ہے۔ ایف بی آر کی ایڈمنسٹریشن ونگ سے تعلق رکھنے والے سیکرٹری کے عہدے پر تعینات دو افسران ظہور احمد اور عاطف نواز وڑائچ کو ملازمت کے رولز اینڈ ریگولیشنز کی خلاف ورزی پر 120 روز کے لیے معطل کر دیا گیا ہے، گریڈ 18 کے ان دونوں افسران کا چند روز پہلے ہی لاہور کارپوریٹ آفس سے ایف بی آر ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں تبادلہ کیا گیا تھا جہاں وہ بطور ڈپٹی کمشنرز تعینات تھے، دونوں پر جنرل باجوہ کے خاندان کا ٹیکس ڈیٹا لیک کرنے کا الزام ثابت ہوا۔ دونوں ڈپٹی کمشنرز کو چیئرمین ایف بی آر کے حکم پر سیکرٹری ریوینو عاصم احمد نے معطل کیا ہے۔

ایف بی آر ذرائع کے مطابق ٹیکس معلومات کو غیر قانونی اور بغیر اجازت افشا کرنے پر ایک سال کی قید کی سزا بھی دی جا سکتی ہے لیکن ان دونوں افسران کو صرف معطلی کی سزا دی گئی ہے، ترجمان ایف بی آر آفاق قریشی نے اپنے ادارے کے دو سینیئر افسران کو معطل کرنے کی تصدیق کی یے۔

یاد رہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے اہل خانہ کے انکم ٹیکس ریکارڈ کے غیر قانونی طور پر لیک ہونے کی انکوائری کا حکم دیا تھا۔ یہ دستاویزات لیک ہونے کے بعد معروف تحقیقاتی ویب سائٹ فیکٹ فوکس تک پہنچ گئی تھیں۔ ایف بی آر کی انکوائری میں یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ سینئیر صحافی احمد نورانی نے جنرل باجوہ کے اثاثوں بارے جو خبر شائع کی وہ مصدقہ دستاویزات کی بنیاد پر تیار کی گئی۔ وزیرخزانہ نے ڈیٹا لیکیج کی انکوائری کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ فوجی سربراہ کی ٹیکس معلومات کا اس طرح لیک ہونا رازداری کے قانون کی واضح خلاف ورزی ہے۔ یعنی بلاواسطہ طور پر یہ کہا گیا ہے کہ جو دستاویزات لیک ہوئی ہیں وہ مصدقہ ہیں۔

یاد رہے کہ فیکٹ فوکس نے ایسے نازک موقع پر یہ رپورٹ شائع کی تھی جب حکومت اور فوجی قیادت کے مابین نئی فوجی تقرریوں کے حوالے سے ڈیڈلاک چل رہا تھا اور جنرل قمر باجوہ ایک اور ایکسٹینشن حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ چنانچہ اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے کہ انکا ٹیکس ڈیٹا حکومت کی مرضی سے لیک ہوا ہوگا، وزیر خزانہ نے فوری طور پر انکوائری کا حکم جاری کیا تھا جس کا نتیجہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے بعد سامنے آیا ہے۔ وزیر خزانہ نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے ریونیو طارق محمود پاشا کو ہدایت کی تھی کہ وہ خود ڈیٹا لیکیج کی خلاف ورزی کی تحقیقات کریں۔

یاد رہے کہ ’فیکٹ فوکس‘ پر شائع ہونے والی رپورٹ میں ٹیکس گوشواروں اور ویلتھ سٹیٹمنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا تھا کہ جنرل باجوہ کے خاندان نے گزشتہ 6 برسوں میں 12 ارب روپے سے زائد کی جائیدادیں اور اثاثے بنائے۔ باجوہ خاندان کی جائیداد اور اثاثوں کے حوالے سے خبر بریک کرنے سے پہلے فیکٹ فوکس نامی تحقیقاتی ویب سائٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان، سابق فوجی حکمراں جنرل پرویز مشرف اور سابق فوجی ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کی کرپشن کے حوالے سے بھی خبریں شائع کی ہیں۔

آرمی چیف کے خاندان کے مبینہ ٹیکس ریکارڈ کے حوالے سے جاری فیکٹ فوکس کی رپورٹ کے دعووں کے مطابق پاکستان کے اندر اور باہر آرمی چیف کے معلوم اثاثوں اور کاروبار کی موجودہ مارکیٹ ویلیو 12 ارب 70 کروڑ روپے ہے۔ ویب سائٹ نے اپنی رپورٹ میں 2013 سے 2021 تک جنرل باجوہ اور انکے خاندان کی ویلتھ سٹیٹمنٹس بھی شیئر کیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ جنرل باجوہ کی اہلیہ عائشہ امجد کے اثاثے جو 2016 میں صفر تھے، وہ بعد کے 6 برسوں میں 2 ارب 20 کروڑ روپے ہو گئے۔ اس رقم میں فوج کی جانب سے ان کے خاوند کو ملنے والے رہائشی پلاٹ، کمرشل پلاٹ اور مکانات شامل نہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ اکتوبر 2018 کے آخری ہفتے میں جنرل باجوہ کی بہو ماہ نور صابر کے ڈیکلیئرڈ اثاثوں کی کُل مالیت صفر تھی اور ان کی شادی سے صرف ایک ہفتہ قبل ہی یعنی 2 نومبر 2018 کو ان کے اثاثے ایک ارب 27 کروڑ روپے سے زائد ہوگئے۔ اسی طرح فیکٹ فوکس نے دعویٰ کیا کہ ماہ نور کی بہن ہمنا نصیر کے اثاثے 2016 میں صفر تھے جو 2017 تک ’اربوں‘ میں پہنچ گئے۔ رپورٹ میں مزید الزام لگایا گیا ہے کہ ماہ نور کی 3 بہنوں میں سب سے چھوٹی نابالغ بہن کے ٹیکس ریٹرن پہلی بار 2018 میں جمع کرائے گئے جب کہ ابھی وہ صرف 8 سال کی تھیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اسکے 2017 کے ریٹرن ظاہر کرتے ہیں کہ اسے پانچ عدد جائیدادیں بطور تحفہ دی گئیں، رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ آرمی چیف کے دوست اور ان کے صاحبزادے کے سسر صابر حمید مٹھو کے ٹیکس گوشوارے 2013 میں 10 لاکھ سے بھی کم تھے، تاہم آنے والے برسوں میں وہ بھی ارب پتی ہوگئے اور لاہور کے طاقتور بزنس ٹائیکون بن گئے اور بیرون ملک اثاثے منتقل کرنے شروع کر دیئے۔

Related Articles

Back to top button