حکومت اور عمران کے درمیان مذاکرات کا امکان ختم؟

عمران خان نے حکومتی جماعتوں سے مذاکرات کے لیے ایک سات رکنی کمیٹی بنارکھی ہے لیکن دوسری جانب 9 مئی کو عمرانڈوز کی شرپسندانہ کارروائیوں اور عمران خان کے ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے نہ صرف عمران خان سے کسی بھی قسم کے مذاکرات سے صاف انکار کر دیا ہے بلکہ اب تو عمران خان کیخلاف فوجی عدالت میں مقدمات چلنے کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں جا کے بعد مستقبل قریب میں تحریک انصاف اور حکومت کے مابین مذاکرات کا امکان معدوم دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت یا تو جیل میں ہے، یا روپوش ہے یا پھر پارٹی سے علیحدگی اختیار کر چکی ہے۔

عمران خان کی جانب سے بنائی گئی مذاکراتی کمیٹی کے اراکین میں شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، اسد قیصر، حلیم عادل شیخ، عون عباس بپی، مراد سعید اور حماد اظہر شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ اراکین جیل میں ہیں، کچھ کا عمران خان سے کوئی رابطہ نہیں اور کچھ کو پولیس ڈھونڈتی پھر رہی ہے۔پاکستان تحریک انصاف تو ہر صورت مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کسی قسم کے مذاکرات کے حق میں نظر نہیں آتے۔نواز شریف کے مذاکرات سے انکار کا ملک کی سیاسی صورت حال پر کیا اثر ہوگا؟

اس حوالے سےکالم نگار اور تجزیہ نگار وجاہت مسعود سمجھتے ہیں کہ عمران خان اور ان کی جماعت کے لیے اب مذاکرات کا وقت ختم ہوچکا ہے۔وجاہت مسعود کا مزید کہنا ہے : ’عمران خان کی ٹیم کے حکومتی ٹیم سے مذاکرات ہوئے تھے، وہ ایک اہم بریک تھرو تھا کہ قومی انتخابات ایک دن ہونے چاہییں۔ اب یہ طے کرنا باقی تھا کہ کس تاریخ کو ہونے چاہییں، لیکن عمران خان نے مذاکراتی سلسلے کو ختم کر دیا۔’اب چونکہ عمران خان کا اپنے دوستوں یعنی فوج کے ساتھ براہ راست تنازع ہے اور اس تنازع میں سیاسی حکومت تو سرے سے فریق ہی نہیں تھی۔ اب اگر اس پریشر کو ختم کرنے کے لیے عمران خان ایک مذاکراتی ٹیم بنا رہے ہیں تو دیکھنا ہوگا کہ اس ٹیم کے لوگ کون ہیں، ان کی کیا اتھارٹی ہے اور کیا اس طرح کے اہم معاملات وہ ٹیم لے کر چل سکتی ہے؟‘ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ مذاکرات کے لیے وقت ختم ہو چکا ہے۔

وجاہت مسعود نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’اگر مارشل لا کی بات کریں تو اس کا امکان نہیں کیونکہ ماضی میں مغرب خاص طور پر امریکہ کی مارشل لاء کے حوالے سے خاموش حمایت موجود رہی ہے، لیکن موجودہ صورت حال میں پاکستان یورپ اور امریکہ سے الگ تھلگ کھڑا ہے۔‘انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’دوسری جانب اس وقت پاکستان کا خزانہ خالی ہے۔ حکومت کے پاس صرف نو ارب ڈالرز پڑے ہیں، جس میں سے سٹیٹ بینک میں موجود چار اعشاریہ تین ارب ڈالرز حکومت کے ہیں اور باقی پانچ ارب ڈالرز نجی بینکوں کے ہیں۔ ہمیں 30 جون تک تین اعشاریہ سات ارب ڈالرز قرض کے ضمن میں واپس کرنے ہیں۔ اس کے بعد ہماری حکومت کے پاس ایک ارب ڈالر سے بھی کم رقم بچے گی۔وجاہت مسعود کے خیال میں: ’مارشل لا ملک کے حالات ٹھیک کرنے کے لیے نہیں لگتا بلکہ اس کے کچھ اور مقاصد ہوا کرتے ہیں اور یہ وہ وقت نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جو قصہ اس وقت چل رہا ہے وہ جمہوریت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔

بقول وجاہت مسعود: جو لوگ بنی گالہ بڑے جوش و ولولے کے ساتھ گئے تھے، وہ اسی ترتیب سے واپس آرہے ہیں۔ یہ کام سیاسی حکومتیں نہیں کرتیں، نہ ہی ان کے بس میں ہوتا ہے۔’یہ کام تو ہم نے 30 اکتوبر سے 19 دسمبر 2011 کے دوران دیکھا جب 12 اہم ترین لوگ، جن میں شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، اسحاق خاکوانی اور اعظم سواتی شامل ہیں، عمران خان سے آن ملے تھے۔ ’اس کے بعد ہم نے 2018 سے پہلے بھی یہ ترتیب دیکھی، جب لوگوں کو بھیجا جاتا تھا اور انہیں دو رنگا جھنڈا گلے میں پہنایا جاتا تھا۔ یہ کام ’مالک‘ کا ہے۔‘ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ موجودہ صورت حال نہ تو جمہوریت کے لیے اچھی ہے، نہ معیشیت کے لیے اور نہ ہی ملک کے لیے اچھی ہے۔

وجاہت مسعود کے خیال میں: ’عمران خان نے جو مذاکرات کی بات کی، وہ خود کو عوام میں بحال کرنے کی کوشش ہے، ورنہ جن لوگوں کو گذشتہ پانچ، چھ برس میں عمران خان نے سیاسی طور پر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے وہ کس حیثیت سے عمران خان کومعاف کریں؟ بدقسمتی ہے کہ جو اتفاق رائے نو مئی کے واقعات کے بعد پوری قوم میں پایا گیا، وہ اتفاق رائے پاکستان ٹوٹنے یا ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی دینے اور 12 مرتبہ انتخابات میں عوامی مینڈیٹ تبدیل کرنے پر نہیں پایا گیا۔

دوسری جانب سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) عمران خان کی جماعت سے عسکری اداروں کی ناراضگی کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مسلم لیگ ن این یا پی ڈی ایم کیوں بات نہیں کرنا چاہتی، کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ عسکری ادارے پی ٹی آئی سے ناراض ہیں، ان پر غصہ ہیں، لہذا اسی غصے کا فائدہ اٹھا کر وہ سیاسی منظر نامے سے عمران خان کو ہٹانے کا ایجنڈا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’اگر انہیں یہ معلوم ہو جائے کہ فوج کا غصہ نہیں رہا اور وہ مذاکرات چاہتے ہیں تو پھر وہ اس قسم کا فیصلہ نہیں کریں گے۔

بقول حسن عسکری: پی ڈی ایم انتظامی طور پر عمران خان کو سیاست سے آؤٹ نہیں کر سکتی۔ ہاں اگر ہماری عسکری قیادت چاہے تو ان کی حمایت

فائز عیسیٰ نے عمرانڈو بندیال کو آئین کیوں یاد دلایا؟

سے پی ڈی ایم یہ کرنے کا سوچ سکتی ہے لیکن سر دست ایسا ممکن نہیں۔

Related Articles

Back to top button