داماد نے ساس کیخلاف آڈیو لیکس کی تحقیقات کیسے روک دیں؟

چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے اپنی ساس کی مبینہ آڈیو سمیت دیگر آڈیوز کیخلاف جاری تین رکنی جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات کو روکنے کے بعد ایک بار پھر وفاقی حکومت اور سپریم کورٹ آمنے سامنے آ گئے ہیں۔ ناقدین یہ سوال اٹھاتے نظر آ رہے ہیں کہ یہ کیسا انصاف ہے کہ کوئی جج اپنے گھر والوں بارے کیس کا ہی منصف بن بیٹھے اور فیصلے کرنا شروع کر دے۔ ایسے فیصلوں کی نہ تو کوئی اخلاقی ساکھ ہو گی اور نہ ہی سیاسی قائدین ایسے فیصلوں کا احترام کرینگے۔ ناقدین کے مطابق ایسے فیصلوں سے سپریم کورٹ اپنی توقیر اور احترام کو اپنے ہاتھوں دفن کر رہی ہے۔

خیال رہے کہ حکومت نے ججز کے حوالے سے سامنے آنے والی مختلف آڈیوز پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا تھا۔ کمیشن میں بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق بھی شامل تھے۔ حکومت نے قرار دیا تھا کہ ان آڈیو لیکس کی وجہ سے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی خودمختاری، غیر جانب داری اور کردار پر سنجیدہ خدشات نے جنم لیا ہے اور عوامی اعتماد متزلزل ہوا ہے۔ کمیشن کو 30 روز میں تحقیقات مکمل کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ تاہم اب سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے کمیشن کا نوٹی فکیشن معطل کرتے ہوئے 31 مئی کو اگلی سماعت کے لیے اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کردیے۔

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے آڈیو لیک کمیشن کی تشکیل کے خلاف دائر 4 درخواستوں پر سماعت کی۔

سپریم کورٹ نے جاری تحریری حکم نامےمیں آڈیو لیکس کمیشن کو مزید کام سے روکتے ہوئے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کی تشکیل کا نوٹی فکیشن معطل کر دیا۔تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے بینچ پر اٹھنے والا اعتراض مسترد کیا جاتا ہے، یہ طے شدہ اصول ہے کہ کسی بھی انکوائری کمیشن میں کسی جج کی شمولیت کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان سے اجازت ضروری ہے۔حکم نامے میں کہا گیا کہ بادی النظر میں وفاقی حکومت نے یکطرفہ اقدام سے آئینی اصولی کی خلاف ورزی کی ہے۔چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے تحریری حکم نامے میں کہا کہ اگلی سماعت 31 مئی کو ہوگی اور ساتھ ہی اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔

قبل ازیں سماعت کے لیے عمران خان کی طرف سے ڈاکٹر بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری اور سیکریٹری بار مقتدیر اختر شبیر، درخواست گزار ریاض حنیف راہی اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے 5 رکنی لارجر بینچ پر اعتراض اٹھایا، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حکومت کیسے سپریم کورٹ کے ججوں کو اپنے مقاصد کے لیے منتخب کر سکتی ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب، عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے، بہت ہوگیا، اٹارنی جنرل صاحب آپ بیٹھ جائیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت کسی جج کو اپنی مرضی کے مطابق بینچ میں نہیں بٹھا سکتی، ہم نے سوال پوچھا کہ 184 (بی) میں لکھا ہے کم از کم 5 ججوں کا بینچ ہو، اگر آپ نے ہم سے مشورہ کیا ہوتا تو ہم آپ کو بتاتے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعے کا فائدہ یہ ہوا کہ عدلیہ کے خلاف جو بیان بازی ہو رہی تھی وہ ختم ہو گئی، حکومت ہم سے مشورہ کرتی تو کوئی بہتر راستہ دکھاتے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ ہمارے انتظامی اختیار میں مداخلت نہ کریں، ہم حکومت کا مکمل احترام کرتے ہیں، عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی قانون سازی جلدی میں کی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وفاقی حکومت عدلیہ کے معاملات میں کوارٹرز کا خیال کرے، انکوائری کمیشن میں حکومت نے خود جج تجویز کیے۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ اس سے پہلے تین نوٹیفکیشنز میں حکومت نے جج تجویز کیے جنہیں بعد میں واپس لیا گیا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وفاقی حکومت سے گزارش ہے کہ آئین کا احترام کریں، آئین کا احترام کرتے ہوئے روایات کے مطابق عمل کریں، معذرت سے کہتا ہوں کہ حکومت نے ججوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ ‏جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں نہیں لکھا کہ فون ٹیپنگ کس نے کی؟ ‏فون ٹیپنگ ایک غیر آئینی عمل ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ٹیلی فون پر گفتگو کی ٹیپنگ نہ صرف غیر قانونی عمل ہے بلکہ آرٹیکل 14 کے تحت یہ انسانی وقار کے بھی خلاف ہے، اس کیس میں عدلیہ کی آزادی کا بھی سوال ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ٹیلی فون پر گفتگو کی ٹیپنگ غیر قانونی عمل ہے، آرٹیکل 14 کے تحت یہ انسانی وقار کے بھی خلاف ہے، اس کیس میں عدلیہ کی آزادی کا بھی سوال ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ‏مفروضے کی بنیاد پر آڈیوز کو درست مان لیا گیا۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 209 ایگزیکٹو کو اجازت دیتا ہے کہ صدراتی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج سکتی ہے، بظاہر وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے حاضر سروس ججوں کے خلاف مواد اکٹھا کر کے مس کنڈکٹ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے آئین میں اختیارات کی تقسیم کی خلاف ورزی کی ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ لگتا ہے انکوائری کمیشن نے ہر کام جلدی میں کیا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ جج اپنی مرضی سے کیسے کمیشن کا حصہ بن سکتے ہیں، اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج کے خلاف بھی چیف جسٹس کی اجازت سے جوڈیشل کونسل کے علاوہ کسی دوسرے فورم پر جا سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ میٹھے الفاظ استعمال کر کے کور دینے کی کوشش کی جارہی ہے، بظاہر اختیارات کی تقسیم کے آئینی اصول کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بظاہر آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل کے نوٹیفکیشن میں غلطیاں ہیں، بادی النظر میں آڈیو لیکس کمیشن عدلیہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، آئین عدلیہ کو مکمل آزادی دیتا ہے۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ جو تحقیقات اداروں نے کرنی تھی وہ ججوں کے سپرد کردی گئی۔

Related Articles

Back to top button