سانحہ APS کے متاثرین 8 برس بعد بھی انصاف کے منتظر

پشاور کے آرمی پبلک سکول میں 132 معصوم جانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلنے والے تحریک طالبان پاکستان کے سفاک دہشت گرد 8 سال بعد بھی قانون کی گرفت میں نہیں آسکے، بلکہ وہ اب اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ اپنے حملوں سے فوج کو مذاکرات پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ایک طرف سانحہ پشاور میں شہید ہونے والے بچوں کی مائوں نے اسلام آباد میں وزیراعظم ہائوس کے باہر جھولیاں اٹھا کر قاتلوں کو انجام تک پہنچانے کی دہائی دی تو دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان نے فوج کے ساتھ جنگ بندی ختم کرتے ہوئے اس کی فورسز پر حملوں کا اعلان کر دیا۔

 

یاد رہے کہ سانحہ اے پی ایس دسمبر 2014 میں پیش آیا تھا جس کے بعد پارلیمنٹ نے دہشتگردی ختم کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے تحریک طالبان کے خلاف بھر پور فوجی آپریشن شروع کیا تھا۔ تاہم بعد میں عسکری حکام نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی اپنا لی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج تحریک طالبان ایک مرتبہ پھر بھرپور قوت سے اکٹھی ہو رہی ہے۔ ایسے میں بے گناہ بچوں کو گولیوں اور بموں کا نشانہ بنانے والے سفاک درندے مُنہ چڑھا رہے ہیں۔

 

پشاور سانحے میں جان کی بازی ہارنے والے بچوں کے والدین اور رشتے داروں کا مطالبہ ہے کہ تب کے سول اور فوجی حکام کے خلاف مقدمہ درج کر کے واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں۔ 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں کے حملے میں 132 طلبہ سمیت 140 سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔ تحریکِ طالبان پاکستان  نے واقعے کی ذمے داری قبول کی تھی، سانحے کے آٹھ برس مکمل ہونے پر متاثرین نے سپریم کورٹ آف پاکستان اور وزیرِ اعظم ہاؤس کے سامنے اپنے مطالبات منوانے کے لیے احتجاج کا اعلان کیا تھا تاہم اسلام آباد پہنچنے پر متاثرین، وزیرِاعظم سیکریٹریٹ کی جانب سے یقین دہانیوں کے بعد واپس پشاور چلے گئے۔

 

متاثرین کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم سیکریٹریٹ نے اُنہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ اُن کی وزیِراعظم شہباز شریف سے ملاقات کرائی جائے گی جس کے بعد وہ واپس پشاور آ گئے ہیں، اس سے قبل مظاہرین جن میں اکثریت خواتین کی تھی گاڑیوں پر سوار ہو کر اسلام آباد کی جانب روانہ ہوئے، متاثرین نے واقعے میں جان گنوانے والے بچوں کی تصاویر اور مطالبات پر مبنی بینرز اُٹھا رکھے تھے، سانحہ اے پی ایس کے متاثرین جمعرات کو اسلام آباد روانہ ہوئے۔

 

متاثرین کو گلہ ہے کہ ایک برس قبل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے اس وقت کے وزیرِاعظم عمران خان کو بلا کر انہیں متاثرین کے مطالبات حل کرنے کی ہدایت کی تھی، لیکن اس کے باوجود اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اے پی ایس سانحے میں جان کی بازی ہارنے والے طالبِ علم اسفند خان کی والدہ شاہانہ اجون کہتی ہیں کہ متاثرین نے سانحے کے وقت اہم سول اور فوجی عہدوں پر تعینات افسران کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رُجوع کیا تھا، شاہانہ اجون کا کہنا تھا کہ جسٹس گلزار احمد نے عمران خان کو متاثرین کے ساتھ بیٹھ کر چار ہفتوں میں مطالبات پورے کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اُن کے بقول اس حوالے سے وفاقی وزرا اور اراکینِ پارلیمان بشمول عمر ایوب خان اور زرتاج گل پر مشتمل کمیٹی نے پشاور آ کر متاثرہ والدین سے ملاقاتیں بھی کی تھیں، لیکن تاحال مطالبات پورے نہیں ہوئے، آٹھ برس گزر گئے ہیں مگر انصاف نہیں ملا، متاثرین میں شامل مسز تحسین نے بتایا تھا کہ انہوں نے سپریم کورٹ اور وزیرِ اعظم ہاؤس کے سامنے پرامن احتجاج کا پروگرام بنایا ہے۔

 

وفاقی یا صوبائی حکومت نے اے پی ایس متاثرین کے اسلام آباد میں احتجاج پر تاحال کوئی ردِعمل نہیں دیا، متاثرین کے وکیل فضل خان ایڈووکیٹ نے بتایا کہ عدالتی کمیشن نے اس واقعے کو سکیورٹی کی ناکامی قرار دیتے ہوئے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی، فضل خان نے بتایا کہ عدالتی کمیشن نے اس وقت کے اہم سول اور فوجی حکام کو سکیورٹی ناکامی کا ذمے دار قرار دیا تھا لیکن کسی کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

 

خیال رہے کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے متاثرہ والدین کی درخواست پر اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے 2018 میں عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا، پشاور ہائیکورٹ کے جج جسٹس محمد ابراہیم کی سربراہی میں بننے والے عدالتی کمیشن نے اپنی 500 صفحات پر مشتمل رپورٹ مکمل کر کے 2020 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے حوالے کی تھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ دہشت گرد بغیر کسی مزاحمت کے سکول کے عقب سے اندر داخل ہوئے، حالانکہ اس دوران اگر سکیورٹی گارڈز مزاحمت کرتے تو صورتِ حال مختلف ہو سکتی تھی، عدالتی کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگر اپنا ہی خون غداری کر جائے تو پھر ایسے حملوں کو روکنا مشکل ہوتا ہے اور کوئی بھی سکیورٹی ایجنسی ایسے حملوں کا سدِ باب نہیں کر سکتی جب دُشمن گھر کا بھیدی ہو۔

 

سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے کئی افراد کو دہشت گردوں کی سہولت کاری کے الزام میں گرفتار کر کے فوجی عدالتوں میں پیش کیا تھا۔اس واقعے پر پاکستان بھر میں سخت ردِعمل سامنے آیا تھا اور دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کے مطالبے کے بعد ملک بھر میں فوجی عدالتیں قائم کر دی گئی تھیں، پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا گیا تھا جب کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت چاروں صوبوں میں انسدادِ دہشت گردی کے لیے ایپکس کمیٹیاں بنا دی گئی تھیں۔

APS Attack Victims | Pakistan News in Urdu |Who was involved in APS Peshawar tragedy?

Related Articles

Back to top button