قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا ذکرنہیں

پاک فوج نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کےا علامیے میں سازش کا ذکر نہیں ہے، سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں، فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ، جس کو اب ہم نے عملی جامہ پہنایا ہے، ہم خود کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔سابقہ وزیر اعظم کے دورہ روس پر اعتماد میں لیا گیا تھا، امریکہ نے ہم سے فوجی اڈے مانگے ہی نہیں۔پاکستان کی بقاء صرف اور صرف جمہوریت میں ہے۔
آج جمعرات کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے؎ایک سوال کے جواب میں کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں بحث کے نکات پر بات نہیں کر سکتا، لیکن میرا خیال ہے کہ اجلاس کے اعلامیے میں ’سازش‘ کا لفظ شامل نہیں ہے۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آرمی چیف مدت ملازمت میں توسیع چاہتے ہیں نہ اسے قبول کریں گے، وہ اپنی مدت پوری کرکے رواں سال 29 نومبر کو ریٹائر ہوجائیں گے۔ امریکا کی جانب سے فوجی اڈے مانگے جانے کے حوالے سے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان سے اڈوں کا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا، اگر مطالبہ کیا جاتا تو فوج کا مؤقف بھی سابق وزیر اعظم کی طرح ’ایبسولوٹلی ناٹ‘ ہوتا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کےاہم نکات میں "1۔فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔2۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیے میں ’سازش‘ کا لفظ شامل نہیں ہے۔3۔ کسی نے پاکستان سے فوجی اڈے نہیں مانگے۔4۔ آرمی چیف مدت ملازمت میں توسیع چاہتے ہیں نہ قبول کریں گے۔5۔ فوج کسی کو این آر او دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔6۔ پاکستان میں اب کوئی مارشل نہیں آئے گا۔7۔’نیوٹرل کا لفظ فوج کے کردار کو بیان نہیں کرتا۔8۔ فوج ’ڈس انفارمیشن مہم‘ کا بہت بڑا ٹارگٹ ہے۔9۔ فوج میں کسی قسم کی تقسیم نہیں ہے۔10۔ ایٹمی ہتھیاروں پر بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے۔11 اسٹیبلشمنت کی طرف سے کوئی آپشن دیا گیا اور نہ رکھا گیا شامل ہیں۔
میجرجنرل بابرافتخار نے ایک سوال کے جواب میں انکشاف کیا کہ سابق وزیر اعظم نے سیاسی بحران کے حل کے لیے آرمی چیف سے رابطہ کیا تھا،اسٹیبلشمنٹ کی اپوزیشن جماعتوں سے ملاقات کے متعلق سوشل میڈیا پر چلنے والی افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے ا نہوں نےکہا کہ اس بات میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے بھی ایسا سنا ہے، تحقیقاتی صحافت بہت آگے بڑھ چکی ہے، اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائے، ایسا کوئی رابطہ نہیں ہوا، کوئی ڈیل نہیں ہوئی اور ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر جو کچھ ہورہا ہے اسے بیرونی اثرورسوخ کے ذریعے بڑھایا جارہا ہے، کچھ دراڑیں ضرور وجود رکھتی ہیں جنہیں بیرونی اثرو رسوخ سے بڑھایا اور پھر اس کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست اور قومی سلامتی سے متعلق خیالات کو منفی شکل دی جارہی ہے، اس میں کچھ خیالات حقیقی بھی ہوسکتے ہیں لیکن اس کو بیرونی اثرورسوخ سے اس تیزی کے ساتھ بڑھایا جارہا ہے جسے بغیر تصدیق کے آگے شیئر کردیا جاتا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آرنے کہا کہ اپنی سوسائٹی کو ان اثرات سے بچانے کے لیے ہمیں بہت مربوط اقدامات کرنے پڑیں گے، یہ حکومتی سطح پر بھی کرنا پڑے گا اور انفرادی سطح پر بھی کرنا پڑے گا، تمام اداروں کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا، ہم نے بحیثیت ادارہ اس حوالے سے اپنے طورپر اقدامات اٹھائے ہیں، ڈس انفارمیشن کیمپین کا بہت بڑا ٹارگٹ ہماری فوج ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جو جنگ لڑی ہے وہ اپنے عوام کے بل بوتے پر لڑی ہے، اگر عوام فوج کے ساتھ نہ کھڑے ہوں تو جن ملکوں میں یہ حالات تھے آج ان کے حالات دیکھ لیں، کدھر گئی وہ فوج اور کیا حالت ہے اس ملک کی۔ فوج کے خلاف سوشل میڈیا مہم سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ مختلف تنظیموں کے سوشل میڈیا سیلز بنے ہوئے ہیں، ان سوشل میڈیا سیلز ذریعے سیاسی اختلافات اور ماضی سے متعلق اپنی اپنی رائے کو لے کر بحث و مباحث ہوتے ہیں جنہیں بعد میں بیرونی اثرورسوخ کے ذریعے بڑھاوا دیا جاتا ہے، یہ سارا ڈیٹا ہمارے اداروں کے پاس آچکا ہے، جب اس کے تانے بانے مل جائیں گے تو انشااللہ وہ بھی آپ کے ساتھ شیئر کریں گے، فی الوقت یہ ملاجلا معاملہ ہے جس میں اندرونی اختلافات کو بیرونی عناصر کے ذریعے بڑھاوا دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشرقی بارڈر پر کوئی خطرہ نہیں ہے، ہم نے اس پر نظر رکھی ہوئی ہے، بھارت کی جانب سے فالس فلیگ آپریشن کیے جاتے رہے ہیں اس حوالے سے اہتمام بھی رہتا ہے۔ فوج کے اندر جانبدار اور غیر جانبدار کی لڑائی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ آپ کو شاید معلوم نہیں ہے کہ فوج ’یونیٹی آف کمانڈ‘ کے فیکٹر پر چلتی ہے، چیف آف آرمی اسٹاف جس جانب دیکھتا ہے اسی جانب آرمڈ فورس بھی دیکھتی ہے، آج تک اس میں نہ تبدیلی آئی ہے نہ انشااللہ آگے کبھی آئے گی، الحمداللہ فوج کے اندر کسی قسم کی کوئی تقسیم نہیں ہے اور پوری فوج اپنی لیڈرشپ پر فخر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کا دارومدار سیاسی استحکام پر ہے، دفاع اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، سیاسی استحکام اصل عنصر ہے جو معیشت اور سیکیورٹی سمیت تمام چیزوں کو آگے بڑھاتا ہے، اگر ملک میں سیاسی عدم استحکام ہوگا تو اسے یقینی طور پر قومی سلامتی کو نقصان پہنچے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کہہ لیں یا فوج کہہ لیں لیکن حکومت کے ساتھ ہمارے بہترین تعلقات ہیں، کوئی اختلافات نہیں ہیں، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو سابق وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بہت اچھا اور احترام کا تعلق رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے دنوں جو کچھ ہوا وہ ایک سیاسی عمل کا حصہ تھا، جمہوریت میں یہ چیزیں ہوتی رہتی ہیں لیکن اس دوران عدم استحکام ضرور آیا، جس دن نئی حکومت آئی اس دن اسٹاک ایکسچینج اوپر گئی اور ڈالر نیچے آیا، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ کسی حدتک استحکام آرہا ہے، اس کو برقرار رہنے کے لیے تھوڑا وقت لگے گا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہ کرنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا اس روز ان کی طبیعت ناساز تھی، وہ آفس بھی نہیں آئے تھے، اس کی اور کوئی وجہ نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ امریکی انخلا سے افغانستان میں ویکیوم آیا تھا، ابھی تک وہاں کی موجودہ حکومت کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، ان کی فوج اور ایجنسیز ابھی اس طرح سے کام ہیں کررہیں اس لیے وہاں خلا موجود ہے جس کا فائدہ وہاں موجود دہشتگردوں نے اٹھایا، ان کے خلاف وہ بھی کاروائیاں کررہے ہیں، الحمداللہ ہم اس قابل ہیں کہ دہشتگردی کی اس لہر کو پیچھتے دھکیل سکیں۔ انہوں نے کہا کہ میں کسی ملک کا نام نہیں لوں گا لیکن اگر سی پیک کسی ملک کے مفاد میں نہیں ہیں تو عین ممکن ہے کہ وہ اس کو مؤخر کرنے کے لیے اقدامات کریں لیکن الحمد اللی سی پیک جاری ہے، اس کے تحفظ کی ذمہ داریاں ہاک فوج خود سرانجام دے رہی ہے، یہ ایک بہت بڑا اسٹریٹجک پراجیکٹ ہے اور ہماری چین کے ساتھ دوستی کا بہت بڑا مظہر ہے، جو کچھ بھی ہوتا رہا ہے ہم نے اس دوران سی پیک کی رفتار کو کم نہیں ہونے دیا۔
پاک فوج کے ترجمان نے پریس بریفنگ کا آغاز کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج آپ کو پاکستان کی قومی سلامتی، پاکستان آرمی کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں ، آپریشن ردالفساد کے تحت حالیہ اقدامات کے بارے میں آگاہ کرنا ہے اور فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں ہونے والی بات چیت پر بھی آگاہی دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو روز قبل آرمی چیف کی زیر صدارت فارمیشنز کور کمانڈر کانفرنس ہوئی اور اس میں پاکستان آرمی کے تمام فارمیشن کمانڈرز نے شرکت کی، کانفرنس کے شرکا کو پاک فوج کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اور خطے کے حالات کے تناظر میں درپیش سیکیورٹی چیلنجز ان کے حوالے سے سیکیورٹی اور انٹیلی جنس بریفنگ دی گئیں جبکہ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے وضع کردہ حکمت عملی سے بھی آگاہ کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج کی بارڈر سیکیورٹی مکمل طور پر برقرار ہے اور مسلح افواج اور متعلقہ ادارے کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ میجر جنرل بابر افتخار نے بتایا کہ فارمیشن کمانڈر بریفنگ میں آپریشن ردالفساد کے تحت انٹیلی کی بنیاد پر آپریشنز اور مغربی سرحدوں کی مینجمنٹ کے حوالے آگاہ کیا گیا، پچھلے چند مہینوں میں بلوچستان اور قبائلی اضلاع میں دہشت گردوں نے امن عامہ کو خراب کرنے کی بے انتہا کوشش کی لیکن ہمارے بہادر آفیسرز اور جوانوں نے ان مذموم عزائم کو بھرپور طریقے سے ناکام بنایا۔
انکا کہنا تھا اس سال کے پہلے تین ماہ کے دوران 128 دہشت گردوں کو ہلاک اور 270 کو گرفتار کیا گیا اور ان آپریشنز کے دوران 97 افسران اور جوانوں نے شہادت نوش کی، پوری قوم ان بہادر سپوتوں اور ان کے لواحقین کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف ہماری جنگ انشااللہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسی دوران عالمی امن کے قیام کی خاطر اقوام متحدہ کے تحت امن مشن کانگو میں تعینات پاکستان آرمی کے چھ آفیسرز اور جوانوں نے 29مارچ کو فرائض کی ادائیگی کے دوران جام شہادت نوش کیا، اب تک پاکستان فوج کے 168 افسران اور جوان مختلف اقوام متحدہ مشن کے دوران بین الاقوامی امن کی کوششوں کے دوران اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں، ان قربانیوں کا اعتراف اقوام متحدہ میں اعلیٰ ترین سطح پر کیا گیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ فارمیشن کمانڈرز نے ملکی سلامتی کے حوالے سے لیے گئے اقدامات بالخصوص اندرونی سیکیورٹی کی مد میں پاکستان آرمی کی آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کے سلسلے میں مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور اسے درست سمت میں بہترین قدم قرار دیا۔ سیکیورٹی فورسز پر حملوں اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کوئی ایسے مذاکرات اب نہیں ہورہے، ہم ان کے خلاف کارروائی کررہے ہیں اور ہم نے ان کو ٹھیک ٹھاک نقصان پہنچایا ہے، قبائلی علاقوں میں ہم نے ان کی صلاحیت کو بھرپور نقصان پہنچایا ہے، اس کے لیے ہمارے افسران نے بڑی قربانیاں دی ہیں اور انشااللہ ہم ان کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سب نے اتفاق کیا کہ جمہوریت، اداروں کی مضبوطی، قانون کی بالادستی اور سب اداروں کا آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہی بہترین ملکی مفاد کی ضمانت ہے، عوام کی حمایت مسلح افواج کی طاقت کا منبع ہے، اس کے بغیر قومی سلامتی کا تصور بے معنی ہے، اس لیے مسلح افواج اور عوام کے درمیان دراڑ ڈالنے کا سبب بننے والی کوئی دانستہ یا غیردانستہ کوشش وسیع تر ملکی قومی مفاد کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعمیری تنقید مناسب ہے لیکن افواہ سازی کی بنیاد پر سازشوں کے تانے بانے بننا اور بے بنیاد کردار کشی کرنا کسی بھی صورت قابل قبول نہیں، اس حوالے سے افواج پاکستان اور اس کی قیادت کے حوالے سے ایک منظم گھناؤنا پروپیگنڈا مہم چلائی جا رہی ہے اور حتیٰ کہ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے معاشرے میں عوام اور فوج کے درمیان تقسیم اور انتشار پھیلایا جا رہا ہے۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ یہ غیرقانونی، غیراخلاقی اور ملک کے مفاد کے سراسر خلاف ہے، جو کام دشمن سات دہائیوں میں نہیں کر سکا، وہ کام ہم اب بھی نہیں ہونے دیں گے، عوام اور سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں، ہم اس سے باہر رہنا چاہتے ہیں، یہ مہم پہلے کامیاب ہوئی تھی نہ یہ آگے کامیاب ہو گی، بہتر ہو گا کہ ہم اپنے فیصلے قانون پر چھوڑ دیں کیونکہ قانون پر عملدرآمد سے ہی معاشرے ترقی کرتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جہاں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں عسکری قیادت کا مؤقف بھرپور طریقے سے دے دیا گیا تھا اور اس کے بعد اس اجلاس کا ایک اعلامیہ جاری ہوا، اجلاس میں کیا بات ہوئی میں وہ ڈسکس نہیں کر سکتا کیونکہ وہ رازداری کی بات ہے، اس اجلاس کے اعلامیے کو اگر دیکھیں تو جو کچھ اس اجلاس میں طے ہوا وہ اس اعلامیے میں موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں دن رات ایسی دھمکیوں اور سازشوں کے خلاف چوکنا ہیں اور اس کے خلاف کام کررہی ہیں، اگر کسی نے پاکستان کے خلاف کوئی بھی سازش کرنے کی کوشش کی تو اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے، اگر کسی نے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو اسکی آنکھ نکال دی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ اعلامیے میں بڑے واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ کیا تھا یا کیا نہیں تھا، اس اعلامیے میں میرا نہیں خیال کہیں بھی ’سازش‘ کا لفظ موجود ہے، اس میٹنگ کے منٹس کو حکومت ڈی کلاسیفائی کر سکتی ہے اور ایک دو روز قبل وزیراعظم نے کہا ہے کہ وہ پارلیمانی سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس بلائیں گے اور مسلح افواج کے سربراہ اس اجلاس میں بھی جا کر وہی ’اِن پُٹ‘ اب بھی دے دیں گے۔ مراسلے میں سازش نہ ہونے کے باوجود ڈیمارش دیے جانے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ڈیمارش دیے جاتے ہیں، ڈیمارش صرف سازش پر نہیں دیے جاتے، کئی وجوہات ہوتی ہیں، جیسے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اس اعلامیے میں لکھا ہوا ہے کہ غیر سفارتی زبان استعمال کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس اعلامیے میں لکھا ہوا ہے کہ جو بات چیت کی گئی ہے وہ مداخلت کے مترادف ہے، اس لیے اس کے اوپر ڈیمارش دیا جاتا ہے، یہ ایک سفارتی طریقہ کار ہے، یہی وہ الفاظ ہیں جن پر اتفاق کیا گیا اور ڈیمارش دیا گیا۔
یادر ہے کہ 27 مارچ کو اسلام آباد میں ایک جلسے کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ان کی بیرونی پالیسی کے سبب ’غیر ملکی سازش‘ کا نتیجہ ہے اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے بیرون ملک سے فنڈز بھیجے جارہے ہیں۔ بعد ازاں اس خط کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کا 37 واں اجلاس وزیراعظم ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں قومی سلامتی کمیٹی نے کہا تھا کہ یہ مراسلہ مذکورہ ملک کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کے مترادف ہے جو ناقابل قبول ہے، پاکستان سفارتی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے متعلقہ ملک کو مضبوط سفارتی رد عمل جاری کرے گا۔ اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلہ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے غیر ملکی عہدیدار کی جانب سے استعمال کی جانے والی زبان کو غیر سفارتی قرار دیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز پشاور میں سابق وزیراعظم عمران خان نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اداروں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سلامتی ان لٹیروں کے ہاتھ میں ڈال رہے ہو، بیرونی سازش کے ذریعے حکومت میں آنے والے کیا جوہری طاقت کا تحفظ کر سکتے ہیں۔
پاک فوج کے ترجمان نے جوہری تنصیبات اور اثاثوں پرعمران خان کے بیان پرکہا ہمیں جوہری اثاثوں کے حوالے سے تھوڑا محتاط رہنا چاہیے، یہ کسی ایک سیاست قیادت کے ساتھ منسلک نہیں ہیں، جب سے پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع ہوا، جتنی حکومتیں آئیں انہوں نے پوری محنت، دیانت داری اور ملک کے ساتھ وفاداری کے ساتھ اس ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھایا اور یہاں تک پہنچایا جہاں پر ہم ہیں، تو یہ کسی ایک کا نہیں ہے اور ہماری سیاسی قیادت نے بھرپور طریقے سے پاکستان کی سالمیت کے اس پروگرام کو آگے بڑھایا ہے۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہمارے ایٹمی اثاثوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور ہمیں اسے اپنے سیاسی مباحثوں کا حصہ نہیں بنانا چاہیے۔ ایک اور سوال کے جواب میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ نیوٹرل لفظ شاید صحیح طریقے سے فوج اور اداروں کے موقف کی وضاحت نہیں کرتا، ہمارا آئینی اور قانونی کردار کسی قسم کی سیاسی وابستگی یا سیاست میں عمل دخل نہیں ہونا چاہیے، پچھلے 74سال میں تمام سیاسی جماعتوں کا فوج سے ایک ہی مطالبہ رہا ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، اب ہم نے اس کو عملی جامع پہنایا۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی سیاسی قیادت سے کہا تھا کہ ہم اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں، میں کبھی کسی کے پاس نہیں گیا تو مجھ سے کیوں آپ بار بار ملنے آتے ہیں، اس سے پہلے گلگت بلتستان پر ایک اجلاس میں بھی تمام سیاسی قیادت کی موجودگی میں یہ بات ہوئی تھی اور کسی نے کہا تھا کہ آپ سیاست میں مداخلت کرتے ہیں تو آرمی چیف نے کہا تھا کہ ہم سیاست سے بالکل دور ہیں، آپ ہمیں اس میں مزید مت گھسیٹیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، پچھلے ضمنی انتخاب میں کسی نے یہ الزام نہیں لگایا کہ فوج کی طرف سے مداخلت کی گئی، بلدیاتی انتخابات میں کسی نے کوئی الزام نہیں لگایا، پہلے لوگ کہتے تھے کہ کال آتی تھیں یا فون آتے تھے، آج کوئی کہہ رہا ہے، یہ بہت اچھا فیصلہ ہے اور آگے بھی ایسے ہی رہے گا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سابق وزیراعظم نے دورہ روس سے قبل اعتماد میں لیا تھا، وہ جب روس گئے تھے تو ادارہ جاتی رائے مانگی گئی تھی اور فوج اس معاملے میں ان کے ساتھ تھی کہ جانا چاہیے، اس دن کسی کے خام وخیال میں نہیں تھا کہ جس دن وزیر اعظم وہاں ہوں گے، وہ اسی دن جنگ کا آغاز کردیں گے جو بہت شرمندگی کا باعث تھا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے سابق وزیراعظم عمران خان کے سامنے 3 آپشنز رکھے جانے کے حوالے سے سوال پر کہا کہ وہ آپشنز اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے نہیں رکھے گئے تھے، وزیر اعظم آفس کی جانب سے چیف آف آرمی اسٹاف کو اپروچ کیا گیا تھا کہ اس ڈیڈ لاک میں کچھ بیچ بچاؤ کی بات کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت اس وقت آپس میں بات کرنے پر تیار نہ تھی تو آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وزیراعظم آفس گئے اور وہیں پر یہ تین آپشنز پر بات ہوئی کہ کیا کیا ہو سکتا ہے، ان میں سے ایک تحریک عدم اعتماد تھا، دوسرا وزیراعظم کا استعفیٰ تھا اور تیسرا آپشن یہ تھا کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد واپس لے لے اور وزیراعظم اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے الیکشنز کی طرف چلے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم تیسرے آپشن کو اس وقت کی اپوزیشن پی ڈی ایم کے پاس لے گئے، ان کے سامنے یہ گزارش رکھی اور اس پر سیر حاصل بحث کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح کا کوئی قدم اب نہیں اٹھائیں گے اور اپنے منصوبے پر عمل کریں گے لیکن کوئی آپشن اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے دیا گیا اور نہ رکھا گیا۔ تحریک انصاف کی ریلیوں اور الیکشن کے انعقاد سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ الیکشن کے انعقاد سے متعلق فیصلہ حکومت نے ہی کرنا ہے، ریلیاں جمہوری حق ہیں، پہلے سیکیورٹی خدشات کے سبب ریلیاں اور جلسے ناممکن تھے لیکن پاک فوج، پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اپنی جان پر کھیل کر یہ ماحول فراہم کیا ہے، یہ آزاد فضا ہے جس میں جس کا جو دل کرتا ہے وہ کہتا ہے، جو دل اور زبان پر آتی ہے وہ بولتا ہے چاہے وہ اچھا ہے یا برا ہے، اس جگہ تک پہنچنے کے لیے ہم نے بہت محنت کی اور قربانیاں دی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ جمہوریت کا حصہ ہے کہ لوگ سڑکوں پر آتے ہیں اور اپنی خیالات کا اظہار کرتے ہیں یا کسی سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں، اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے، آگے کہاں جانا ہے کیا کرنا ہے الیکشن کب ہونے ہیں یہ سب سیاسی جماعتوں نے طے کرنا ہے، یہ ہمارا کام نہیں ہے۔
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ہم یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ ہم نے کس حکومت کے ساتھ ٹھیک چلنا ہے اور کس کے ساتھ ٹھیک نہیں چلنا، یہ کوئی چوائس نہیں ہے، پاکستان میں حکومتی منتخب ہو کر آتی ہیں، عوام اپنے منتخب کردہ نمائندے پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں اور پارلیمنٹ ہی عوام کی طاقت کو سرچشمہ ہے، یہ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ ہمیں بتائیں کہ کیا کرنا ہے اور ہم وہی کریں گے، قومی سلامتی کے معاملات پر بحیثیت ادارہ ہم اپنی رائے ضرور دے سکتے ہیں لیکن وہ اسے ماننے کے پابند نہیں ہیں اور نہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کو یہ طے کرنا ہے کہ کس راستے کا انتخاب کرنا ہے، انہیں کسی اور راستے کا انتخاب کرنے پر مجبور کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے، ان کے پاس مینڈیٹ اور اخلاقی اتھارٹی ہے اور اخلاقی اتھارٹی کسی بھی اور اتھارٹی سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ لاہور میں پاک فوج کے افسر پر تشدد سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ بہت افسوسناک واقعہ ہے، میں کسی پر انگلی نہیں اٹھاؤں گا لیکن جنہوں نے یہ کیا ہے ان کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی، پاک فوج اپنے افسران کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑتی، جنہوں نے یہ حرکت کی ہے وہ بہت غلط ہے، ہمیں معاشرے کو پرتشدد عناصر سے باہر نکلانے کی ضرورت ہے، بدمعاشی اور غنڈہ گردی اب نہیں چلے گی، جنہوں نے یہ حرکت کی ہے وہ اب زیر حراست ہیں اور انہیں اس کی سزا ملے گی جس کے وہ لائق ہیں۔ ایک سوال پر ترجمان پاک فوج نے کہا کہ قومی سلامتی کےمشیر ڈاکٹر معید یوسف نے بہت محنت سے کام کیا اور قومی سلامتی کمیٹی کو ازسر نو کھڑا کیا، اب نئی حکومت کس کو قومی سلامتی کا مشیر طے کرتی ہے یہ ان کا اختیار ہے میں اس پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ بھارت اور امریکا سے تعلقات سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کی نیشنل سیکیورٹی ڈائیلاگ میں کی کی جانے والی تقریر پر ردعمل آیا، یہ سمجھنے کی ضرروت ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف نے وہاں جتنی باتیں کیں وہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے منافی نہیں تھیں، سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورہ روس کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا اس میں بھی وہی باتیں تھیں، ان تمام ممالک سے ہمارے ملٹری ٹو ملٹری تعلقات بہت اچھے ہیں۔

Related Articles

Back to top button