میڈیکل رپورٹ میں شہباز گل پر تشدد ثابت نہیں ہوا

تحریک انصاف کےرہنما شہباز کا اسلام آباد کے ہسپتال پمز میں میڈیکل کروایا گیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ ان پر میڈیکل رپورٹ میں تشدد ثابت نہیں ہوا۔

باخبر ذرائع کے مطابق تین رکنی میڈیکل بورڈ نے شہباز گل کا طبی معائنہ کیا، شہباز گل کی میڈیکل رپورٹ اسلام آباد پولیس کو بھجوا دی گئی ہے۔پی ٹی آئی کے وکیل چوہدری فیصل کی جانب سے شہباز گل پر پولیس حراست میں تشدد کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

قبل ازیں پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کے اسسٹنٹ اظہار پر پولیس کے ساتھ مزاحمت کرنے پر تھانہ آبپارہ میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے پولیس کانسٹیبل کی شرٹ پھاڑی اور ایک پولیس کانسٹیبل کا موبائل اور پرس بھی چھین لیا۔ قبل ازیں تھانہ کوہسار کی ٹیم نے ان کے گھر پر چھاپا مارا تھا۔

دوسری جانب چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل کیخلاف غداری سمیت دیگر سنگین مقدمات کی تحقیقات کے لیے چار رکنی خصوصی ٹیم تشکل دے دی گئی ہے۔

ٹیم سابق وزیراعظم عمران خان کے چیف آف سٹاف کے خلاف غداری سمیت دیگر کئی سنگین الزامات کے تحت درج مقدمے کی تحقیقات کریگی، ٹیم کی تشکیل سے متعلق جاری نوٹی فکیشن کے مطابق اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم کو کیس سے متعلق افراد، حکام اور محکموں سے متعلقہ معلومات حاصل کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔

نوٹی فکیشن کے مطابق ایس ایس پی انویسٹی گیشن تحقیقات کیلئے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے ڈیجیٹل معلومات حاصل کریں گے اور 7 روز کے اندر ڈی آئی جی آپریشنز کو پیش رفت رپورٹ پیش کریں گے۔
ایس ایس پی انویسٹی گیشن کی سربراہی میں بننے والی ایس آئی ٹی میں سب ڈویژنل پولیس افسر، ایس ایچ او تھانہ کوہسار اور ایک سب انسپکٹر جو اس کیس کے تفتیشی افسر بھی ہیں، وہ شامل ہیں۔

دارالحکومت کے پولیس افسران نے بتایا کہ شہباز گل کو منگل کے روز عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالا جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا، ان کے خلاف تھانہ کوہسار میں تعزیرات پاکستان کی متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
شہباز گل کے خلاف درج ایف آئی آر کے مطابق ایک نیوز چینل پر پروگرام نشر کیا گیا جس میں شہباز گل بطور مہمان موجود تھے، ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بریگیڈیئر رینک سے نیچے اور اس سے اوپر کے افسران کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی اور انہوں نے بریگیڈیئر کے عہدے سے نیچے کے افسران کو سیاسی جماعت سے منسلک کرنے کی کوشش بھی کی۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ شہباز گل نے پاکستانی فوج کے افسران اور سرکاری ملازمین میں بغاوت پر اُکسانے کی بھی کوشش کی، افسران اور سرکاری ملازمین سے حکومتی احکامات پر عمل نہ کرنے کو کہا تھا اور دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے یہ جنگ نہیں کی یا بغاوت نہیں کی تو پاکستان، امریکا اور بھارت کی کالونی بن جائے گا۔

خیال رہے کہ پی ٹی آئی کے گرفتار رہنما کو اسلام آباد کے تھانہ کوہسار پولیس کی جانب سے مقامی عدالت میں پیش کیا گیا۔ پی ٹی آئی رہنما کو اسلام آباد کے تھانہ کوہسار پولیس کی جانب سے جوڈیشل مجسٹریٹ عمر شبیر کی عدالت میں پیش کیا گیا جبکہ ان کے وکیل فیصل چوہدری بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

اسلام آباد پولیس کی جانب سے تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی تاہم شہباز گل کے وکیل فیصل چوہدری نے ان کے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کی۔عدالتی حکم کے مطابق تفتیشی افسر نے جرم میں مبینہ طور پر ملوث دیگر افراد کے حوالے سے مزید تفتیش کے لیے شہباز گِل کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔

عدالت نے پولیس کی استدعا کو منظور کرتے ہوئے شہباز گل کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔حکم میں کہا گیا تھا کہ شہباز گل کا ریمانڈ فرانزک کے ذریعے وائس میچنگ کے لیے مبینہ طور پر جرم میں استعمال ہونے والے موبائل فون کو برآمد کرنے اور ملزم کے اس انٹرویو کی تصدیق کے لیے بھی طلب کیا گیا تھا جو اس نے کراچی میں واقع میڈیا ہیڈ آفس کو دیا تھا۔

حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ ملزم کا ریمانڈ میڈیا ہاؤس سے ویڈیو کی تصدیق کے لیے طلب کیا گیا تھا۔شہباز گل کے وکیل فیصل چوہدری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے مؤکل کا جسمانی ریمانڈ طلب کرنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے جبکہ وہ پہلے ہی تقریباً 24 گھنٹے سے پولیس کی تحویل میں ہیں۔شہباز گل کے وکیل نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ ان کے مؤکل پر تشدد کیا گیا ہے اور ان کے طبی معائنے کی درخواست کی۔

عدالت کی جانب سے 2 روزہ جسمانی ریمانڈ کی پولیس کی استدعا منظور کرتے ہوئے کہا گیا کہ ملزم کو 12 اگست کو دوبارہ عدالت کے سامنے پیش کیا جائے اور اس کا طبی معائنہ بھی کرایا جائے۔یاد رہے کہ اس سے قبل پی ٹی آئی رہنماؤں نے شہباز گل کی گرفتاری کو اغوا قرار دیا تھا۔

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے بھی ٹوئٹر پر واقعے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے اسے گرفتاری کے بجائے ‘اغوا’ قرار دیا تھا۔سابق وزیراعظم نے ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں کہا تھا کہ کیا ایسی شرمناک حرکتیں کسی جمہوریت میں ہو سکتی ہیں؟ کیا جمہوری معاشروں میں سیاسی کارکنوں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔

عمران خان نے کہا تھا کہ یہ سب بیرونی پشت پناہی سے مسلط کی جانے والی مجرموں کی سرکار کو ہم سے تسلیم کروانے کے لیے کیا جارہا ہے بعد ازاں، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے ان کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گِل کو اسلام آباد پولیس نے قانون کے مطابق بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔

اسلام آباد میں وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ شہباز گل کے خلاف باقاعدہ ایک مقدمہ درج کر کے گرفتار کیا گیا ہے اور صبح عدالت میں مقدمے کے ثبوت پیش کیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ممنوعہ فنڈنگ اور توشہ خانہ ریفرنس آنے کے بعد ایک بیانیہ بنایا جس کی ذمہ داری ایک نجی ٹی وی چینل سمیت پاکستان تحریک انصاف رہنما فواد چوہدری اور ڈاکٹر شہباز گل کو دی گئی۔

وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ عمران خان کی زیر صدارت ایک اجلاس ہوا جس میں سازشی بیانیہ بنایا گیا اور اس کی ذمہ داری شہباز گِل اور فواد چوہدری کو سونپی گئی جس کے بعد ایک نجی ٹی وی چینل پر فون کال پر بات کرکے پورا بیانیہ پڑھ کر سنایا گیا جس میں ایسے جملے بھی شامل تھے جن کا نشر ہونا قومی مفاد میں نہیں تھا مگر اس دوراں شہباز گِل کو روکا نہیں گیا۔

Related Articles

Back to top button