شیریں مزاری کو ISI کے خلاف کلمہ حق کہنا یاد آگیا


اپنے دور حکومت میں خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں مسلسل جبری گمشدگیوں پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے والی سابقہ انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے دعویٰ کیا ہے کہ جب انہوں نے جبری گمشدگیوں سے متعلق ایک ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا تو انہیں جواب میں آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر زمیں طلب کر لیا گیا تھا۔ تاہم یاد رہے کہ جب شیریں مزاری نے یہ بل پیش کیا تھا تب عمران خان کے یار غار لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید آئی ایس آئی کے سربراہ ہوتے تھے۔ ویسے بھی اب شیریں مزاری کو کلمہ حق کہنا اس لیے یاد آیا کہ انہیں اپنی گرفتاری میں ایجنسی کا ہاتھ نظر آتا ہے، جیسا کہ ان کی صاحبزادی ایمان مزاری نے بھی الزام لگایا ہے۔

ڈیرہ غازی خان میں چالیس ہزار کنال زمین پر قبضے کے کیس میں گرفتاری اور رہائی کے بعد نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں میٹ دی پریس سے خطاب کرتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ میں نے جبری طور پر لاپتہ افراد بارے ہمیشہ ایک پوزیشن لی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت نے اس معاملے پر ایک بل بھی تیار کیا تھا، سابق وزیراعظم عمران خان چاہتے تھے کہ بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے اور وزارتوں سے دیکھنے کو کہا تھا کہ یہ بل رولز آف بزنس میں آتا ہے یا نہیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اسی شام مجھے فون آیا کہ آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹرز میں پیش ہو کر وضاحت دیں۔ شیریں مزاری نے بتایا کہ وہ ہدایت ملنے کے بعد آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹرز گئیں اور وضاحت دی کہ پاکستان نے انٹرنیشنل کنونشنز پر دستخط کرنے ہیں اس لیے یہ بل لانا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں بل پیش کرنے کے بعد اس سے داخلہ کمیٹی کو بھیجا گیا جہاں ‘نظر نہ آنے والی طاقتوں’ نے شقیں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ سابق وفاقی وزیر نے بتایا کہ اسمبلی سے ترامیم منظور کر لی گئیں لیکن بدقسمتی سے سینیٹ میں پہنچنے تک وہ غائب ہوگئیں۔

انہوں نے کہا کہ ‘جبری طور پر لاپتہ افراد کے معاملے پر میری پوزیشن واضح ہے’ اور عمران نے بھی اس معاملے پر شروع سے ہی اپنی آواز بلند کی ہے اور ‘وہ آمنہ جنجوعہ کے احتجاج میں ہمیشہ جاتے رہے ہیں’۔ شیریں مزاری نے کہا کہ ‘اس کے خلاف ہم نے اپنے منشور میں بھی پوزیشن لے رکھی ہے اور آئندہ بھی ہم یہی پوزیشن لیں گے لیکن آپ جانتے ہیں کئی طاقتیں ہیں جو بل کو منظور ہونے سے روکتی ہیں’۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں نہ صرف بلوچ قوم پرستوں کی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ تیز ہوا بلکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور لاہور سے بھی درجنوں صحافیوں کو خفیہ ایجنسیوں نے دن دہاڑے اغوا اور گرفتار کیا لیکن شیریں مزاری خاموش رہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان کی صاحبزادی ایمان حاضر مزاری گرفتار اور اغوا ہونے والوں کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی رہیں۔

تاہم میٹ دی پریس میں گفتگو کرتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ انہوں نے صحافیوں کے تحفظ کا بل بھی ‘بڑی مشکل’ سے منظور کروایا تھا۔ لیکن وہ شاید بھول گئیں کہ عمران دور حکومت میں میڈیا مخالف پاکستان ڈویلپمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی بل پاس کروانے کی کوشش بھی کی گئی لیکن ملک گیر احتجاج کے باعث یہ حکومتی منصوبہ چوپٹ ہو گیا۔ صحافیوں کے تحفظ کے بل بارے بات کرتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ نے کہا کہ ‘یہ بل کیسے منظور ہوا اور کیا رکاوٹیں پیش آئیں، آپ سب جانتے ہیں’، میں نے اگر کبھی کتاب لکھی تو یہ تمام تفصیلات شامل کروں گی۔
یاد رہے کہ سابق وزیر کی جانب سے لاپتہ افراد کے بل کے حوالے سے پہلی دفعہ ان خیالات کا اظہار نہیں کیا گیا بلکہ جنوری میں وزارت انسانی حقوق میں انہوں نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ بل سینیٹ کو بھیجنے کے بعد لاپتہ ہوگیا ہے۔
شیریں مزاری نے حالیہ گرفتاری کو ‘اغوا اور لاپتہ’ کیے جانے کا کیس قرار دیتے ہوئے تفصیلات سے آگاہ کیا۔انہوں نے کہا کہ ‘گومل روڈ پر انہیں روکا گیا، کار سے کھینچا گیا اور ایک مرد نے آ کر میرے ہاتھ سے فون چھین لیا۔ پھر مجھے لیڈیز پولیس گھسیٹ کر کار سے باہر لے آئیں، اب یہ کارروائی اینٹی کرپشن والوں کی تھی یا آئی ایس آئی کی، مجھے کیا پتا’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘پنجاب اینٹی کرپشن کو میرا فون کیوں چاہیے ہوگا، ہائی کورٹ کے حکم کے بعد آدھی رات کو مجھے ملا لیکن اس کے ساتھ اور میرے بٹوے کے ساتھ جو ہوگیا تھا وہ نا ہی پوچھیے لیکن میں نے بھی کافی سنایا’۔ تاہم یاد رہے کہ انکی بیٹی ایمان مزاری اپنی والدہ کی گرفتاری کو جنرل باجوہ کے کھاتے میں ڈال چکی ہیں۔
شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے بعد چکری انٹر چینج کے قریب مجھے واش روم جانا تھا۔ لیکن باتھ روم سے واپسی پر میں نے وہاں چند لوگ دیکھ کر کہا کہ اب میں آپ کی گاڑی میں نہیں بیٹھ رہی کیونکہ مجھے پتہ نہیں کہ آپ مجھے گرفتار کر کے کہاں لے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘پھر پولیس نے مجھے کہا کہ ہم واپس مڑ رہے ہیں کیونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوٹس لے لیا ہے، درحقیقت ان کی سازش یہ تھی کہ اسلام آباد سے نکل کر لاہور یا پنجاب کی حدود میں آجائیں کیونکہ ان کو پتا تھا کہ یہاں ریلیف مل جائے گا’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘بعد میں مجھے پتہ چلا وہ کاغذی کارروائی کے لیے مجسٹریٹ ڈھونڈ رہے تھے جو ان کو ملا نہیں، مجھے پتا تھا کہ انصاف ملنا نہیں، اچھا ہوا اگر ڈی جی خان یا لاہور مڑتے تو پھر مسئلہ ہونا تھا’۔

جب سابق وفاقی وزیر سے پوچھا گیا کہ ان کی بیٹی نے تو گرفتاری کا الزام جنرل قمر باجوہ پر لگایا ہے تو شیریں مزاری نے کہا کہ ایمان مزاری اس واقعے پر پریشان ہو کر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو مزاری فوبیا ہوگیا ہے’۔

کرپشن کیس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ‘سیاسی انتقام’ ہے کیونکہ مجھے الزام کے حوالے سے کبھی نہیں بتایا گیا یا وضاحت پیش کرنے کا بھی نہیں کہا گیا اور میرا نام صرف تفتیشی کے دوران گردش کر رہا ہے۔

Related Articles

Back to top button