ضرب عضب جیسے آپریشن کا فیصلہ قومی سلامتی کی کمیٹی کریگی

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب جیسے آپریشن کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے ،تاہم اس کا فیصلہ قومی سلامتی کی کمیٹی کرے گی ۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انکا کہنا تھا پشاور پولیس خودکش حملے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب جیسے آپریشن کی ضرورت ہے تاہم اس کا فیصلہ قومی سلامتی کی کمیٹی کرے گی، ماضی کی طرح اس وقت بھی قومی سطح پر دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب جیسے آپریشن کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے، پشاور پولیس لائن مسجد پر خود کش دھماکے میں 100 افراد کی شہادت سانحہ آرمی پبلک اسکول سے کم نہیں۔ اس وقت قوم کو تمام تر اختلافات کے باوجود اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔

وزیر دفاع نے مزید کہا کہ اے پی ایس سانحہ کے وقت بھی تمام سیاستدان اکٹھے ہوئے تھے لیکن ہمیں ماضی پر بھی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے اور غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہیے، جب روسی فوج افغانستان میں داخل ہوئی تو ضیا دور میں ہم امریکی جنگ میں کود گئے۔ روس واپس چلا گیا اور امریکا خوش ہوگیا لیکن خمیازہ ہم نے بھگتا اور پھر مشرف دور نائن الیون میں دوبارہ اس حصہ کا بن گئے۔ اس پوری جنگ میں سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان ہم نے بھگتا۔ پھر ان دہشت گردوں کو واپس لانے کی باتیں ہوئیں اور اب ہم کیسے شہید پولیس اہلکاروں کے اہل خانہ کو کیسے بتائیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔

خواجہ آصف نے فرقہ واریت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک دوسرے کی مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔ ایسا دنیا میں کہاں ہوتا ہے، انہوں نے انکشاف کیا کہ ساڑھے چار لاکھ افغانی قانونی دستاویزات پر پاکستان آئے اور اب وہ واپس نہیں جائیں گے۔ معلوم نہیں ان میں سے کون معصوم شہری ہے اور کون دہشت گرد ہے، ہمیں امریکا کا حواری بننے کے بجائے پہلے اپنا گھر درست کرنا چاہیے۔ دوحہ مذاکرات میں طالبان نے لکھ کر یقین دلایا تھا کہ افغان سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔

بعدازاں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ پشاور دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان کے خراسانی گروپ نے قبول کی ہے، آئی جی خیبرپختونخوا نے بریفنگ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پولیس لائنز میں قائم گھروں میں سے کسی سویلین رہائشی نے خودکش بمبار کیلیے سہولت کاری کی تاہم ابھی اس کی تحقیقات جاری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بم دھماکے میں 97 پولیس اہلکار اور افسران جبکہ 3 سویلین شہید ہوئے ہیں، خود کش دھماکے کے 216 زخمی اسپتال میں زیر علاج ہیں جن میں سے 27 کی حالت تشویشناک ہے۔ ریسکیو آپریشن مکمل کرلیا گیا ہے، ملبے میں سے بھی کئی زخمی اور لاشیں نکالی گئی ہیں، پولیس لائنز مسجد میں خود کش دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان کے خراسانی گروپ نے قبول کی ہے، مستقبل میں امن و امان کے حوالے سے لائحہ عمل دینے کے لیے وزیر اعظم، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی ایوان میں آئیں گے اور اراکین کا اعتماد میں لیں گے۔

انکا کہناتھاایک ہی خودکش تھا، بمبار مسجد تک کیسے پہنچا اور کس نے سہولت کاری کی اس حوالے سے اداروں کی تحقیقات جاری ہیں اور وہ بہت قریب پہنچ چکی ہیں، انکوائری مکمل ہونے پر وزیراعظم ایوان کو اعتماد میں لیں گے، یہ واقعہ پاکستان کے  اورقوم کے خلاف ہے، یقین دلاتا ہوں ہر شہید وہ کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتا ہے اس کا احترام اور دکھ اپنے عزیز جیسا ہے، ہم ہر قیمت پر اس دہشت گردی کی جنگ جیتیں گے، ہم اسی جذبے کے تحت اسی پالیسی کے تحت آگے بڑھیں گے جو سانحہ اے پی ایس کے موقع پر بنائی گئی تھی، ہمارا قائد آج بھی وہی ہے جس کے 126 دن دھرنا دے کر تذلیل کرنیوالے کو بھی قومی سلامتی کمیٹی کے لئے کال کرکے مذاکرات میں شامل کیا، ضرب عضب اور ردالفساد کے سبب دہشت گردی کو ہم نے کافی حد تک ختم کیا آج پھر اسی جذبے کی ضرورت ہے، اس بات کا ذکر ہونا چاہیے اور اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔

رانا ثنا اللہ کاکہنا تھا کہ جو بریفنگز بھی ہوئی، ان میں کسی حد تک مسلح افراد سے بات چیت کرنے پر زور دیا گیا، یہ بات بھی کی گئی کہ ان کی تعداد سات آٹھ ہزار اور ان کی فیملی 25000 ہزار کے قریب ہے۔ اس وقت بھی کہا گیا کہ ان کا کیا قصور ہے ان کیساتھ بات چیت ہونی چاہیے، یہ سوچ، پالیسی چاہے وہ نیک نیتی سے ہی کی گئی ہو مگر یہ طریقہ کار غلط ثابت ہوا، جس کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں اور میں ثبوتوں کے ساتھ سابق حکومت کو اس کا الزام دے سکتا ہوں کیونکہ سابق حکومت نے ایسے لوگوں کو چھوڑا جنہیں سزائے موت ہوچکی تھی، اب نئے سرے سے وزیراعظم، عسکری قیادت اس ایوان کو اعتماد میں لے اور پالیسی مرتب کرے،  پچھلی حکومت کی فاش غلطیوں کا خیمازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔

Related Articles

Back to top button