طالبان حکومت نے امریکی ڈرونز کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی

بالآخر افغانستان کی طالبان حکومت نے حالیہ امریکی ڈرون حملوں کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ انہیں داغنے کے لیے پاکستانی سرزمین کا استعمال کیا گیا۔افغانستان کے وزیر دفاع مولوی محمد یعقوب مجاہد نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق امریکی سی آئی اے کے ڈرونز پاکستان کے راستے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں اور ان حملوں کے لیے پاکستان کی فضائی حدود استعمال ہو رہی ہے۔ یاد رہے کہ پچھلے ہفتے افغانستان کی طالبان حکومت نے الزام عائد کیا تھا کہ القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کو کابل میں نشانہ بنانے کے لیے جو امریکی ڈرون استعمال ہوا اسے داغنے کے لیے ایک ہمسایہ ملک کی ائیر سپیس استعمال ہوئی۔ تاہم تب پاکستان کا نام نہیں لیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ گذشتہ برس اگست میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ اس کے بعد ملک کا نظم و نسق چلانے کے لیے ایک عبوری حکومت کا اعلان کیا گیا تھا جس میں مولوی یعقوب کو، جو افغان طالبان کے بانی ملا محمد عمر کے بیٹے ہیں، وزارت دفاع کا قلمدان سونپا گیا۔ 28 اگست کو اپنے چیف آف آرمی سٹاف قاری فصیح الدین فطرت اور وزارت دفاع کے ترجمان مولوی عنایت اللہ خوارزمی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے طالبان حکومت کے وزیر دفاع مولوی یعقوب نے کہا کہ ’ہم پاکستان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنی فضا ہمارے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔‘

اگرچہ مولوی محمد یعقوب نے اپنے الزام کے حق میں کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’امریکہ نے انخلا کے وقت ہمارے ریڈار سسٹم کو بھی تباہ کر دیا مگر اس کے باوجود ایسی اطلاعات ہیں کہ امریکہ پاکستانی فضائی حدود استعمال کر رہا ہے۔‘

انکا اشارہ القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی جانب تھا جو ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے خود اس ہلاکت کی تصدیق کی۔ تاہم پاکستان کا مؤقف ہے کہ اس نے کسی بھی ملک کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی اور نہ ہی ڈاکٹر ایمن الظواہری کی ہلاکت کے لیے پاکستانی ائیر سپیس استعمال کی گئی۔

دوسری جانب اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تحریکِ انصاف کی رہنما اور سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہاکہ: ’یہ ایک سنگین الزام ہے۔ ہمارے اپنے شہری ہلاک ہوتے رہے ہیں اور اس سے پہلے ہم نے امریکی جنگیں لڑنے کی بھاری معاشی قیمت ادا کی۔ہمیں ایسی دوسری جنگ میں نہیں گھسیٹا جا سکتا۔ قوم کو دفتر خارجہ اور فوجی ترجمان کی جانب سے وضاحت درکار ہے کہ آیا ہم نے ڈرون اوور فلائٹس کی اجازت دینے کے لیے امریکہ کے ساتھ دوبارہ کوئی معاہدہ کیا ہے۔

عمران کے ایما پر صحافی وقار ستی کے خلاف توہین مذہب کا کیس

واضح رہے کہ گذشتہ سال افغانستان سے امریکی انخلا کے دوران صدر بائیڈن نے عہد کیا تھا کہ ان کی انتظامیہ طالبان کی قیادت والی نئی حکومت کو افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بنانے کی اجازت نہیں دے گی۔ بائیڈن کے ایک مشیر نے کہا تھا کہ امریکی انخلا کے بعد سے ہی امریکی جاسوس افغانستان پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے کہ القاعدہ کے رہنما آہستہ آہستہ ملک میں واپس آ رہے ہیں۔

Related Articles

Back to top button