عاصم منیر کے خلاف کونسی 4 سازشیں ناکام بنائی گئیں؟

دنیا نیوز سے وابستہ معروف اینکر پرسن کامران شاہد نے انکشاف کیا ہے کہ عاصم منیر کو آرمی چیف کے عہدے پر فائز ہونے سے روکنے کے لیے ان کے خلاف بڑے پیمانے پر سازشیں ہوئیں لیکن خوش قسمتی سے ناکام بنا دی گئیں۔

اپنے پروگرام ‘آن دی فرنٹ’ میں کامران شاہد نے بتایا کہ فوج کو غیر سیاسی بنانے کی کہانی کے مرکزی خالق جنرل عاصم منیر ہیں جو کہ جنرل باجوہ کے دور میں فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کے ناقد تھے۔ لہذا کامران شاہد کا کہنا ہے کہ اب عوام کو یہ تسلی ہونی چاہیئے کہ فوج کی کمان ایسے سپہ سالار کے ہاتھ میں ہے جو حقیقی طور پر غیر سیاسی ہے اور اس کی کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی ذاتی وابستگی نہیں ہے۔ نیا آرمی چیف نہ کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ ہو گا اور نہ ہی خلاف ہو گا۔ جب بھی حکومت بلائے گی فوج مدد کو پہنچ جائے گی اور جمہوری اداروں کے ساتھ کھڑی ہوگی۔

 

کامران شاہد نے کہا کہ عاصم منیر اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ وہ اپنے خلاف ہونے والی تمام سازشوں سے بچتے ہوئے آرمی چیف کے عہدے پر تعینات ہو گئے۔ان سازشوں کو مختصراً بیان کرتے ہوئے کامران شاہد نے کہا کہ عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تقرری کو روکنے کے لیے سب سے پہلے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا پروپوزل آیا۔ یہ پروپوزل جنرل باجوہ کی طرف سے نہیں تھا بلکہ عمران خان کے دماغ کی اختراع تھا۔ لیکن یہ آئیڈیا بیچ رستے میں ہی ختم ہو گیا، خصوصا ًجب عمران اور باجوہ کی خفیہ ملاقات کی خبر سامنے آئی۔ عمران خان کی جانب سے کوشش کی گئی تھی کہ جنرل باجوہ کو توسیع دلوا کر عاصم منیر کو ریٹائر کروا دیا جائے۔ اس دوران حکومت اور فوجی قیادت کے مابین معاملات بھی کافی خراب ہوگئے تھے اور صورت حال ایسی ہو چکی تھی کہ مارشل لا لگنے کا بھی امکان تھا۔ تاہم اس دوران ہونے والی اہم ترین کور کمانڈرز میٹنگ میں توسیع کی پروپوزل کو سختی سے رد کر دیا گیا اور مارشل لا نافذ ہونے کا امکان بھی ختم ہو گیا۔

 

کامران شاہد نے کہا کہ جنرل عاصم منیر کے خلاف تیسری سازش یہ ہونا تھی کہ حال ہی میں ریٹائر کر دیے جانے والے ایک لیفٹیننٹ جنرل کی جانب سے عاصم منیر کی تعیناتی سپریم کورٹ میں چیلنج کی جانی تھی، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ عدالت میں اس فریق کی تو شنوائی ہو سکتی تھی جو براہ راست متاثر ہو لیکن کسی اور کو آگے لاکر اس معاملے کو اٹھانے کی کوشش کی تو عدالت بالکل بھی سماعت نہ کرتی خصوصا ًجب عاصم منیر سینئر ترین جنرل تھے۔ چنانچہ اس لیفٹیننٹ جنرل نے یہ معاملہ عدالت میں لے جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔

 

کامران شاہد نے چوتھی اور آخری سازش کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فوجی قیادت کی جانب سے عاصم منیر کی بجائے لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد کا نام بطور نیا چیف تجویز کیا گیا۔ جنرل باجوہ کی جانب سے حکومت کو کہا گیا کہ ساحر کو آرمی چیف بنا دیا جائے، تاہم اس تجویز پر نواز شریف اور شہباز شریف ڈٹ گئے اور ساحر کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف بنا کر جنرل عاصم منیر کو نیا آرمی چیف بنا دیا۔

 

یاد رہے کہ اعزازی شمشیر یافتہ عاصم منیر پاک فوج کے 17 ویں آرمی چیف ہیں۔ وہ 2017 میں ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس تعینات ہوئے۔ 2018 میں ڈی جی آئی ایس آئی جبکہ جون 2019 میں کور کمانڈر گوجرانوالہ تعینات ہوئے۔ جنرل عاصم 2021 میں کوارٹر ماسٹر جنرل تعینات ہوئے۔ وہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد سے فارغ التحصیل ہیں۔ عاصم منیر نے آفیسرز ٹریننگ سکول منگلا سے 1986 میں تربیت لی تھی ،ان کا او ٹی ایس میں 17 واں آفیسرز ٹریننگ کورس تھا۔انہیں دوران تربیت اعزازی شمشیر سے بھی نوازا گیا۔ عاصم منیر نے پاک فوج کی 23 فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ عاصم منیر بطور بریگیڈیئر راولپنڈی کور میں جنرل باجوہ کے ماتحت رہے۔وہ 2014 میں کمانڈر فورس کمانڈ ناردرن ایریا جبکہ سعودی عرب میں ڈیفنس اتاشی تعینات ہوئے۔ انہیں ہلال امتیاز ملٹری، تمغہ دفاع اور تمغہ جمہوریت سے نوازا گیا۔ جنرل عاصم کو کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ انسٹرکٹر میڈل سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر مثالی یادداشت کے حامل اور حافظِ قرآن بھی ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان کی عسکری تاریخ میں جنرل عاصم منیر پہلے آرمی چیف ہیں جو دو انٹیلی جنس ایجنسیوں یعنی آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کی سربراہی کر چکے ہیں۔ مزید برآں وہ پہلے کوارٹر ماسٹر جنرل ہیں جنہیں آرمی چیف مقرر کیا گیا ہے۔

Related Articles

Back to top button