عدالت سپیکر کی رولنگ کو درست کیوں قرار نہیں دے سکتی؟

قومی اسمبلی کے سپیکر کی جانب سے تحریکِ عدم اعتماد مسترد کرنے کی رولنگ کو قانونی ماہرین غیر آئینی قرار دے رہے ہیں اور انکا کہنا ہے کہ اسپیکر کے پاس تحریکِ عدم اعتماد کی کارروائی کو مسترد کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا لہذا ان کا فیصلہ آئین شکنی کے مترادف ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی بنیادی طور پر یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس سارے مسئلے کی جڑ یعنی سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کیا آئینی ہے یا غیر آئینی؟ یاد رہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرتے ہوئے آرٹیکل 5 کا حوالہ دیا تھا اور کہا تھا کہ چونکہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد غیر ملکی سازش کا حصہ ہے لہٰذا اسے مسترد کیا جاتا ہے، لیکن سپیکر ایسا کرتے ہوئے شاید بھول گئے کہ وہ آئین شکنی کے مرتکب ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں ان پر آرٹیکل 6 کے تحت آئین شکنی کا کیس چل سکتا ہے۔
معروف ماہرِ قانون سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں کہ دنیا کی پارلیمانی تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں جب اسپیکر کے اس نوعیت کے اقدامات کو عدالتوں نے غیر آئینی قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ اُن کے بقول اگر پارلیمانی معاملات میں رکاوٹ آ رہی ہو تو عدالت اس میں مداخلت کر سکتی ہے کیونکہ آئین کے مطابق سپیکر کے آئینی اقدامات کو تحفظ حاصل ہے لیکن غیر آئینی اقدامات کو ریورس کیا جاسکتا ہے اور اس کی مثالیں موجود ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے برطانوی پارلیمنٹ میں برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے ‘بریگزٹ’ کی مثال دی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ‘بریگزٹ’ پر برطانوی پارلیمان کے ایوانِ زیریں کے اسپیکر نے اس معاملے پر بلایا گیا اجلاس بحث کرائے بغیر ملتوی کر دیا تھا۔ تاہم برطانیہ کی سپریم کورٹ نے اسپیکر کی رولنگ مسترد کرتے ہوئے انہیں اجلاس دوبارہ بلا کر بحث کرانے کی ہدایت کی تھی۔ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس خاص طور پر تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے بلایا گیا تھا اور اس روز قومی اسمبلی میں اور کوئی بزنس نہیں ہو سکتا تھا۔ اس مرحلے پر ڈپٹی اسپیکر کی طرف سے ووٹنگ کی اجازت نہ دینا غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام ہے اور یہ آئینی ضرورت تھی کہ ووٹنگ کا عمل مکمل کیا جاتا۔
معروف قانون دان حامد خان ایڈووکیٹ نے تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی رولنگ کو شرمناک اور آئینی نظام پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ تک وزیراعظم اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتے تھے۔ انکا کہنا یے کہ سپیکر نے صریحاً آئین کے خلاف ایک انتہائی شرمناک رولنگ دی ہے اور آئینی نظام اور عمل کو منجمد کردیا اور اسے آگے بڑھنے سے روک دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد ختم کردی، انہوں نے کہا کہ اسپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے بالواسطہ اپوزیشن کے تمام ممبران قومی اسمبلی کو غدار بھی قرار دے دیا حالانکہ نہ تو اس سلسلے میں کوئی تحقیقات ہوئیں اور نہ ہی کوئی نتائج سامنے آئے۔ حامد خان ایڈووکیٹ کے مطابق اسمبلی توڑنے والے عمران خان ایک ایسے وزیر اعظم تھے جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھی اور وہ اسمبلی توڑنے کا اپنا آئینی اختیار کھو چکے تھے لیکن انہوں نے پھر بھی قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس دے دیں اور صدر نے اس غیر قانونی ایڈوائس پر عمل بھی کر دیا۔
معروف قانون دان نے کہا کہ یہ معاملہ اگر عدالت میں جاتا بھی ہے کہ اسپیکر کی رولنگ درست تھی یا نہیں تو اس میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں کیونکہ یہ کوئی آسان معاملہ نہیں ہے، آئین کا آرٹیکل 69 یہ کہتا ہے کہ اسپیکر کی رولنگ اور ایوان میں ہوئے کسی عمل کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا، اگر عدالت کوئی استثنیٰ دیتی ہے تو اس میں کافی وقت لگ جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت میں یہ معاملہ جاتا ہے تو حکومت یہ مؤقف اختیار کرے گی کہ اگر چونکہ معاملہ عوام کے پاس جا رہا ہے تو آپ دخل اندازی نہ کریں اور عوام کو فیصلہ کرنے دیں، اسپیکر کی رولنگ صحیح تھی یا نہیں تھی، اب یہ معاملہ عوام طے کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن عدالت میں موقف اختیار کرے گی کہ عدم اعتماد ہمارا حق تھا اور اس کو غیرآئینی طریقے سے مسترد کیا گیا ہے لہٰذا تحریک عدم اعتماد کو بحال کیا جائے اور اسپیکر کو حکم دیا جائے کہ وہ ووٹنگ کے لیے سیشن منعقد کرے۔
اس معاملے پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے کہا کہ اب یہ فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہے کہ کیا الیکشن ہونے دیا جائے یا واپس تحریک عدم اعتماد کو بحال کر کے اس پر ووٹنگ کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ غیرملکی سازش کو کبھی ثابت نہیں کیا جا سکتا لہٰذا اس بات کو جواز بنا کر فوراً رولنگ دے کر جس طرح ڈپٹی اسپیکر اٹھ کر گئے ، یہ آئینی نظام پر حملہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بیرونی سازش کی بات زیادہ دور تک نہیں جائے گی، اس کا مقصد انہوں نے حاصل کر لیا، اس کا مقصد یہی تھا کہ اس کو جواز بنا کر اسمبلی سیشن کو مؤخر کیا جائے اور تحریک عدم اعتماد کو ختم کردیا جائے، اس بیانیے کا مقصد یہی تھا اور وہ انہوں نے حاصل کر لیا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس بات کا فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہو گا کہ ایک صریحاً غیرقانونی عمل کو نظرانداز کر کے ہم الیکشن کی طرف بڑھ جائیں یا اس عمل کو غیرآئینی قرار دے کر تحریک عدم اعتماد کو بحال کیا جائے۔ اس معاملے پر سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ یہ بالکل غیرآئینی اقدام ہے اور حکومت اس کا کوئی جواز پیش نہیں کر سکتی، اتنی بڑی خلاف ورزی کو معاف نہیں کیا جا سکتا، سپریم کورٹ کو بھی اس بات کا اختیار نہیں کہ وہ آئین کی خلاف ورزی پر کسی کو معاف کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ ہوا ہے بہت غلط ہوا ہے، پاکستان کو اگر ہم اسی طرح سے چلائیں گے تو کیا ہم انارکی کو تقویت دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں حکومت کی جانب سے بیرونی سازش کی نشاندہی کر کے آرٹیکل 5 کا حوالہ دینا درست نہیں، وہ بالکل مختلف بات ہے، اسپیکر صاحب نے یہ ازخود کیسے سوچ لیا کہ یہ تحریک عدم اعتماد اپوزیشن بیرونی قوتوں کے ساتھ مل کر ملی بھگت ہے اور وہ ملی بھگت ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سپریم کورٹ آخری حل نہیں ہے بلکہ آئین خود ہے، اوت اگر آئین کی خلاف ورزی شروع ہو جاتی ہے تو سپریم کورٹ پارلیمنٹ تو نہیں چلائے گی، یہ چیز تو ہوئی ہی صریحاً غلط ہے۔
ماہر قانون اسد رحیم خان کا بھی یہی کہنا ہے کہ اس معاملے میں آئین سے انحراف کیا گیا ہے کیونکہ آرٹیکل 58 میں تفصیل بہت واضح ہے کہ جب تک تحریک عدم اعتماد پر ووٹ نہ ہو جائے یا اس عمل کی پیروی نہ کی جائے اس وقت تک وزیراعظم پاکستان اسمبلیاں تحلیل نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ تحریک عدم اعتماد کو اس طرح ختم کیا جا سکتا ہے اور آرٹیکل 58 کی وضاحت بھی اس نکتے سے بہت زیادہ واضح ہے۔ انکا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 95 کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس کا تعلق عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ سے ہے۔ اُن کے بقول اس آرٹیکل کے تحت اگر قومی اسمبلی میں اراکین کی اکثریت قائدِ ایوان پر اعتماد نہ کرے تو وہ اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتے۔ انہون نے کہا کہ ویسے بھی صاف ظاہر ہے کہ حکومت نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ممکنہ کامیابی کو روکنے کے لیے تحریک عدم اعتماد کی قرارداد کو مسترد کیا جو کہ بدنیتی پر مبنی فیصلہ ہے۔

Related Articles

Back to top button