عمرانڈو اپنی بغاوت کو انقلاب کیوں سمجھتے رہے؟

جو لوگ دو چار ترانے گا کر سمجھ رہے تھے کہ وہ انقلاب کے لئے جدو جہد کر رہے تھے انہیں اب سمجھ آ گئی ہوگی کہ وہ انقلاب کی الف ب سے بھی واقف نہیں ۔اُن کا نہ تو کوئی سیاسی شعور تھا اور نہ ہی تاریخ سےواقفیت ، انہیں علم ہونا چاہئے تھا کہ ناکامی کی صورت میں یہ بغاوت کہلائے گی اور اُس کی معافی نہیں ہوگی،یہ گڈے گڈی کا کھیل نہیں تھا ۔اِن کو شُکر کرنا چاہئےکہ اِن کا تعلق پنجابی ایلیٹ سے ہے، بلوچستان سے نہیں، کم از کم اِن پر عدالت میں مقدمہ تو چلے گا. ان خیالا ت کا اظہار سینئر کالم نگار یاسر پیر زادہ نے اپنے ایک کالم میں کیا ہے. وہ لکھتے ہیں کہ انقلاب دو طرح کا ہوتا ہے ، ایک وہ جو کامیاب ہوجائے اور دوسرا وہ جو ناکام ہو جائے ۔ناکام ہونے والا انقلاب دراصل انقلاب نہیں ہوتا بلکہ وہ بغاوت کہلاتا ہے ۔ کامیاب انقلاب کے بعد بادشاہوں اور حکمرانوں کو عموماًاُن کے ساتھیوں سمیت محلات سے باہر گھسیٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے جبکہ ناکام انقلاب میں یہی سلوک باغیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔روس میں بالشویک انقلاب کے بعد حکمران نکولس دوئم کو اُس کے خاندان کی عورتوں کے ساتھ گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا ، کہا جاتاہے کہ شاہی خاندان کی اِن عورتوں نے اِس قدر بھاری بھرکم اور بیش قیمت زیورات پہنے ہوئے تھے کہ پہلے ہلے میں بندوق کی گولی اُن پر اثر نہ کرسکی سو انہیں تیز دھار خنجر سے مار کر ہلاک کرنا پڑا۔ اسی طرح فرانس میں انقلابیوں نے شہنشاہِ فرانس لوئی کوموت کی سزا سنائی اور اُس کا سر گلوٹین میں دےکر کاٹ دیا، تاریخ کا ستم دیکھیں،یہ کام اسی جلاد نے انجام دیا جو اِس سے پہلے شہنشاہ کا جلاد تھا … یاسر پیرزادہ کہتے ہیں کہ ایرانی انقلاب کےنتیجے میں شاہِ ایران رضا پہلوی ملک سے فرار ہونےمیں کامیاب ہو گیا تھااِس لئےاُس کی جان بچ گئی ورنہ اُس کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوتا جو بادشاہوں کے ساتھ کیا جاتاہے،البتہ رومانیہ میں نکولائی چاؤشسکو کوشش کے باوجودبھاگنے میں ناکام رہا، انقلابیوں نے اُسے بیوی کے ساتھ باندھ کر فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کرکے گولیوں سے بھُون دیا۔ ایک مثال ناکام انقلاب کی اور بھی ہے ۔2016میں ترک فوج کے ایک دھڑے نے طیب اردوان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی، یہ کوشش تقریباً کامیاب ہونے والی تھی کہ اردوان نے اپنے موبائل فون سے عوام کو پیغام دیا کہ وہ اِس کوشش کو ناکام بنا دیں ، اردوان کی قسمت اچھی تھی کہ ترک عوام سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے باغی فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا۔ انقلاب کی اِس ناکام کوشش کے بعد طیب اردوان نے اِن باغیوں اور اُن کےحامیوں کا وہ حشر کیاکہ انہیں چھٹی کا دودھ یاد آگیا ، جس شخص کے بارے میں ذرا سا بھی شبہ تھا کہ وہ اِس سازش میں ملوث تھا ، اسے پکڑ کر بند کر دیا گیا۔
یاسر پیرزادہ لکھتے ہیں کہ اب ایک منٹ کیلئے فرض کریں کہ بالشویک انقلاب اور انقلابِ فرانس ،ایران اور رومانیہ ناکام ہوجاتے تو پھر کیا ہوتا؟ اُس صورت میں نکولس دوئم، شہنشاہ لوئی ، رضا شاہ پہلوی اور چاؤ شسکو نے انقلابیوں کے ساتھ وہی سلوک کرنا تھا جو ریاست کے باغیوں کے ساتھ کیا جاتا ہےکیونکہ ناکام انقلاب کے بعد یہ لوگ باغی قرار پاتے اور بغاوت کی سزا موت ہے۔اسی طرح اگر طیب اردوان کیخلاف فوجی بغاوت کامیاب ہوجاتی تو وہ انقلاب کہلاتی اور پھر اردوان کے ساتھ وہی سلوک ہوتا جو اردوان نے باغیوں کے ساتھ کیا تھا۔ اِن مثالوں سے فقط یہ بتانا مقصود ہے کہ انقلاب اور بغاوت میں باریک سی لکیر ہوتی ہے ، کامیاب بغاوت ،انقلاب کہلاتی ہے اور ناکام انقلاب ، بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ اپنے ہاں جن لوگوں کو انقلاب کا خمار چڑھا تھا وہ یہی سوچ کر گھروں سے نکلے تھے کہ جب وہ مارچ کریں گے تو پورا ملک اُن کے ساتھ اُمڈ آئے گا، یہ وہ لمحہ ہوتاجب کاروبار زندگی معطل ہوجاتا ،سرکار کا سِکّہ چلنا بند ہوجاتا،زمین ساکن ہوجاتی اورعورتیں بچے جننا بند کر دیتیں ۔ اُس موقع پر انقلابیوں کا دیوتا اپنی پوری آن بان کے ساتھ ظاہر ہوتا ، کوئی اُس کے قہر کا سامنا نہ کرسکتا،وہ جو چاہتا وہی ہوتا،مملکت اُس کی محتاج ہوتی، ریاست اُس کے تابع ہوتی، دیوتاکے مخالفین خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتےجبکہ انقلابی ملک کی گلیوں میں ترانے بجاتے جھُومتے پھرتے. یاسر پیرزادہ کہتے ہیں کہ ذرا سوچیں کہ اگرسچ مُچ ایسا انقلاب آ جاتا تو کیا ہوتا، اُس صورت میں یہاں گلی کوچوں میں ’عدالتیں‘ لگی ہوتیں جن میں انقلاب کے مخالفین کو استحصالی قرار دے کر پھانسیوں پر لٹکایا جا رہا ہوتا۔ ممکن ہےکچھ لوگ کہیں کہ یہ بات مبالغہ آمیز ہے ، چلیں مبالغہ ہی سہی ،لیکن اگر حقیقت پسندی سے بھی کام لیں تو یہ بات اطمینان سے کہی جا سکتی ہے کہ جو ’زیادتیاں ‘اِس وقت ہورہی ہیں ’ انقلاب کی کامیابی‘ کی صورت میںیہ زیادتیاں کم ازکم دس گنا زیادہ ہونی تھیں۔ اصل بات یہ ہےکہ انقلاب کو ہم نے بچوں کا کھیل سمجھ لیا ہے ،جو لوگ دو چار ترانے گا کر سمجھ رہے تھے کہ وہ انقلاب کے لئے جدو جہد کر رہے تھے انہیں اب سمجھ آ گئی ہوگی کہ وہ انقلاب کی الف ب سے بھی واقف نہیں ۔اُن کانہ تو کوئی سیاسی شعور تھا اور نہ ہی تاریخ سےواقفیت ، وہ فقط شخصی عقیدت کے تحت نعرے لگا رہے تھے اور اِس گمان میں تھے کہ اپنے تئیں وہ تاریخ کا رُخ بدل رہے ہیں۔ یاسر پیرزادہ کا کہنا ہے کہ اِن میں سے جو لوگ اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے اُن کا معاملہ تو اور بھی دلچسپ ہے، چونکہ ملک کی خرابیوں کے اصل ذمہ دار وہ خود ہیں اور دل میں وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں اِس لئے انقلابی نعرے بازی انہیں ایک گونہ اطمینان دیتی تھی کہ وہ کسی نظریے کے ساتھ کھڑے ہیں ، یہ نظریہ کس قدر کھوکھلا تھا ، انہوں نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ اگر کوئی انہیں آئینہ دکھانے کی کوشش کرتا تو وہ برا مان جاتے کیونکہ انہیں آئینے میں اپنا مکرو ہ چہرہ نظر آتا جو وہ نہیں دیکھناچاہتے تھے۔اب یہ لوگ دُہائی دے رہےہیں کہ اُن کے ساتھ نرمی برتی جائے کیونکہ وہ پڑھے لکھے ہیں ، انگوٹھا چھاپ نہیں ، وہ پیزا کھاتے ہیں کتلمہ نہیں ، وہ جینز پہنتے ہیں دھوتی نہیں ، وہ فیشن ڈیزائننگ کا کام کرتے ہیں کھیتی باڑی نہیں ، وہ انگریزی بولتے ہیں پنجابی نہیں ، انہوں نے فرنچ کٹ رکھی ہے سُچی داڑھی نہیں !سچی بات ہے کہ میں کسی بھی شخص کو بغیر ثبوت اور بلا جواز ایک سیکنڈ بھی حوالات میں رکھنے کے حق میں نہیں ، یہ بنیادی انسانی حقوق اور آئین کی خلاف ورزی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ عام حالات نہیں اور نہ ہی عام جرائم ہیں،جو لوگ انقلاب کے لئے نکلے تھے انہیں علم ہونا چاہئے تھا کہ ناکامی کی صورت میں یہ بغاوت کہلائے گی اور اُس کی معافی نہیں ہوگی،یہ گڈے گڈی کا کھیل نہیں تھااور نہ ہی کسی فیشن ڈیزائنر کا فیشن شو تھا ۔اِن کو شُکر کرنا چاہئےکہ اِن کا تعلق پنجابی ایلیٹ سے ہے، بلوچستان سے نہیں، کم

TTP میں اختلافات شدید، آپسی لڑائی میں مرنے لگے

از کم اِن پر عدالت میں مقدمہ تو چلے گا!

Related Articles

Back to top button