عمران اسمبلی سے فارغ ہونے والا پہلے وزیراعظم کیسے بنا؟


پاکستان کی 74 سالہ سیاسی تاریخ میں کسی بھی وزیر اعظم نے اپنے اقتدار کی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کی لیکن عمران خان وہ پہلے وزیر اعظم بنے جو قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں رخصت ہوئے۔ عمران نے اپنی یقینی شکست دیکھنے کے باوجود استعفیٰ نہ دیا اور فیصلہ کیا کہ وہ پارلیمنٹ کے ہاتھوں فارغ ہوں گے۔ اپنی فراغت کے بعد انہوں نے ایک اور اعزاز حاصل کیا اور ملک کے پہلے وزیر اعظم بن گئے جنہوں نے اپنے ساتھیوں کو قومی اسمبلی سے استعفے دینے پر مجبور کر دیا۔ عمران خان کی اقتدار سے چھٹی اس لئے بھی ایک انوکھا واقعہ ہے کہ انہیں فوجی اسٹیبلشمنٹ اپنے کندھوں پر بٹھا کر حکومت میں لائی تھی اور اب وہ اسی اسٹیبلشمنٹ پر اپنے خلاف سازش کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔
پاکستانی جمہوریت میں کسی بھی منتخب وزیراعظم کے لیے اپنی آئینی مدت کو پورا کرنا ایک چیلنج سے کم نہیں ہوتا ہے، ملک کی 75 سالہ تاریخ میں کئی وزرائے اعظم اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے قاصر رہے، 1947 سے اب تک پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں 29 وزرائے اعظم گزر چکے ہیں۔
18 موقعوں پر کرپشن کے الزامات، براہ راست فوجی بغاوت اور جبری طور پر استعفیٰ لینے سمیت ان کو مختلف بہانوں سے اپنے عہدوں سے ہٹایا گیا، اس میں ایک وزیراعظم لیاقت علی خان کا قتل بھی ہوا، اس کے بعد نئے الیکشن تک ایک عبوری وزیر اعظم اس عہدے پر فائز رہے۔
پاکستان میں وزیراعظم کا مختصر ترین دور دو ہفتے اور سب سے طویل دور چار سال اور دو ماہ کا رہا، میاں نواز شریف 1990، 1997 اور 2013 میں یعنی تین مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی آئینی مدت پوری نہ کر سکے۔
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے، جنھوں نے 1947 میں اقتدار سنبھالا، 16 اکتوبر 1951 کو ایک سیاسی جلسے میں ان کو قتل کیا گیا، ان کی حکومت کا دور چار سال اور دو ماہ تھا، خواجہ ناظم الدین نے 17 اکتوبر 1951 کو وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا، مذہبی فسادات سے صحیح طور پر نہ نمٹنے کی وجہ سے گورنر جنرل نے ان کو 17 اپریل 1953 کو برطرف کیا، گونر جنرل برطانوی نو آبادیاتی دور کا ایک طاقتور عہدہ تھا، ان کا دور حکومت ایک سال چھ ماہ پر مشتمل تھا۔ محمد علی بوگرہ 17 اپریل 1953 کو وزیراعظم بنے، انہوں نے 11 اگست 1955 کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا، ان کی حکومت دو سال اور تین ماہ رہی۔
اسی طرح چوہدری محمد علی نے اگست 1955 میں وزیراعظم کے عہدے کا چارج سنبھالا، حکمراں جماعت کے اندرونی اختلافات 12 ستمبر 1956 کو ان کی برطرفی کا باعث بنے، وہ ایک سال اور ایک ماہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے۔ حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956 کو وزیراعظم بنے، لیکن ریاستی اداروں کے ساتھ اختلافات کے باعث ان کو 18 اکتوبر 1957 کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا، ان کی حکومت ایک سال اور ایک ماہ رہی۔ اکتوبر 1957 میں ابراہیم اسماعیل چندریگر کو وزیراعظم کا عہدہ ملا، لیکن آئی آئی چندریگر تحریک عدم اعتماد کا شکار ہوئے، لیکن انہوں نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کی بجائے 16 دسمبر 1957 کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، وہ دو ماہ سے بھی کم عرصہ پاکستان کے وزیراعظم رہے۔
ملک فیروز خان نون نے 16 دسمبر 1957 کو وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا، لیکن 7 اکتوبر 1958 میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد ان کو برطرف کر دیا گیا، ان کا دور حکومت دس ماہ سے کم تھا، ان کے بعد نورالامین 7 دسمبر 1971 کو وزیراعظم بنے، وہ دو ہفتوں سے بھی کم عرصہ تک پاکستان کے وزیراعظم رہے، انہوں نے پاکستان سے بنگلہ دیش کی علیحدگی کے فوراً بعد 20 دسمبر 1971 کو اپنا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔
بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو نے 14 اگست 1973 کو اقتدار سنبھالا، لیکن جولائی 1977 میں جنرل ضیا نے ایک فوجی بغاوت کے ذریعے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، بعد میں جنرل ضیاء نے ذوالفقار علی بھٹو کو ایک جھوٹے مقدمہ قتل میں پھنسوا کر پھانسی دے دی جو جوڈیشل مرڈر کہلائی، ان کی حکومت کا دور تین سال اور 11 ماہ پر مشتمل تھا۔
جنرل ضیاء نے مارشل لا اٹھانے کے بعد غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے اور یوں محمد خان جونیجو مارچ 1985 میں وزیراعظم بنے، انہیں 29 مئی 1988 کو ضیاالحق نے برطرف کر دیا جو تب فوجی صدر بھی تھا، جونیجو تین سال اور دو ماہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے، انکے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون رہنما بے نظیر بھٹو نے 2 دسمبر 1988 کو وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا، ان کی حکومت کو صدر غلام اسحاق نے چھ اگست 1990 میں برطرف کر دیا تھا، ان کی حکومت ایک سال اور آٹھ ماہ رہی۔
اسکے بعد نواز شریف نے 6 نومبر 1990 کو اقتدار سنبھالا، ان کی حکومت بھی 18 اپریل 1993 کو صدر اسحاق نے صدارتی اختیارات کے تحت برطرف کردی، تاہم ایک عدالتی فیصلے کے بعد نواز شریف کی حکومت بحال ہو گئی، انہوں نے دوبارہ اپنا عہدہ بھی سنبھالا تاہم فوج کی مداخلت کے بعد نواز شریف اور غلام اسحاق دونوں نے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا، ان کا دور حکومت دو سال اور 7 ماہ تھا۔
بے نظیر بھٹو نے 19 اکتوبر 1993 کو دوسری مرتبہ بطور وزیر اعظم اقتدار سنبھالا، لیکن 5 نومبر 1996 کو صدر فاروق لغاری نے صدارتی اختیار کے تحت ان کی حکومت کو برطرف کر دیا، دوسری مرتبہ بے نظیر بھٹو تین سال سے زائد عرصہ وزیر اعظم رہیں۔
سابق وزیراعظم نواز شریف 17 فروری 1997 کو دوسری مرتبہ اقتدار میں آئے، 12 اکتوبر 1999 کو فوجی بغاوت کے ذریعے ان کی حکومت ختم ہوئی، پاکستان کی تاریخ میں تیسری مرتبہ مارشل لا لگا، وہ دو سال اور آٹھ ماہ تک وزیراعظم رہے۔
میر ظفراللہ خان جمالی نومبر 2002 میں فوجی حکمران پرویز مشرف کے دور میں وزیراعظم منتخب ہوئے، انہوں نے 26 جون 2004 میں فوج سے اختلافات کے بعد استعفیٰ دیا تھا، وہ ایک سال اور 7 ماہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے۔ ان کے بعد کچھ عرصے کے لیے پہلے چودھری شجاعت حسین اور پھر امپورٹڈ شوکت عزیز بھی وزیر اعظم ہے۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کے برسراقتدار آنے پر یوسف رضا گیلانی 25 مارچ 2008 کو وزیراعظم منتخب ہوئے، لیکن 2012 میں سپریم کورٹ نے ’توہین عدالت‘ کے الزام میں ان کو نااہل قرار دے دیا، ان کا دور حکومت چار سال اور ایک ماہ پر مشتمل ہے، ان کے بعد نواز شریف 5 جون 2013 کو تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئے، ان کو 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے اثاثے چھپانے کے الزام میں برطرف کر دیا، اس مرتبہ انہوں نے 4 سال اور دو ماہ حکومت کی۔
نواز شریف کو نکالے جانے کے بعد اسٹبلشمنٹ نے عمران خان کو برسر اقتدار لانے کا فیصلہ کیا اور 2018 کے الیکشن میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کی گئی۔ عمران 18 اگست 2018 کو وزیراعظم منتخب ہوئے، تاہم موصوف 10 اپریل 2022 کو اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے باہر ہو گئے، عمران نے تین سال اور 7 ماہ حکومت کی۔
عمران خان کی فراغت کے بعد 11 اپریل2022 کو شہباز شریف نئے وزیراعظم بن گئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے اقتدار کی مدت پوری کر پاتے ہیں یا نہیں؟

Related Articles

Back to top button