عمران اپنے اتحادیوں اور ساتھیوں کو منانے میں ناکام


اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد دائر ہونے کے بعد سے وزیراعظم عمران خان نے اپنی اتحادی جماعتوں اور تحریک انصاف کے ناراض ساتھیوں کو منانے کی کوششیں تو شروع کر رکھی ہیں لیکن ابھی تک ان کا کوئی مثبت نتیجہ نکلتا دکھائی نہیں دیتا اور ان کے اتحادی اور ساتھی ہر گزرتے دن کے ساتھ ان سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد کی صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف تین دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ حکومتی دھڑے کے قائد خان صاحب ہیں جبکہ دیگر دو دھڑوں کی قیادت جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف میں پھوٹ پڑنے کے بعد اپوزیشن جماعتیں یہ دعوی کر رہی ہیں ان کو حکومتی جماعت کے 20 ممبران قومی اسمبلی کی حمایت حاصل ہو چکی ہے۔
دوسری جانب عمران حکومت جن چار اتحادی جماعتوں کی 20 سیٹوں کی بدولت قائم ہوئی تھی وہ وزیراعظم سے نالاں نظر آتی ہیں۔ ان میں سے دو اتحادی جماعتوں کی قیادت سے عمران خان کی ملاقات ہوچکی ہے جبکہ دو اتحادی جماعتیں ملاقات سے انکار کرچکی ہیں۔ عمران قومی اسمبلی میں سات نشستیں رکھنے والی ایم کیو ایم کے کراچی ہیڈکوارٹر کا چکر تو کاٹ آئے لیکن بقول مہاجر قیادت نہ تو خان صاحب نے تحریک عدم اعتماد میں ان کی حمایت مانگی اور نہ ہی انہوں نے کوئی یقین دہانی کروائی۔ دوسری جانب ایم کیو ایم والے اپوزیشن سے مسلسل رابطے میں ہیں اور اور اب تو آصف زرداری سے بھی ملاقات کر چکے ہیں۔مہاجر پارٹی کی قیادت کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد بارے جو فیصلہ قاف لیگ کرے گی وہی فیصلہ ان کا بھی ہوگا۔ایم کیو ایم کے وسیم اختر نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اب ابہیں حکومت پر بھروسہ نہیں رہا اور اگر مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمان ضمانت دیں تو ایم کیو ایم والے آصف زرداری کے وعدے پر اعتبار کرکے اپوزیشن کے ساتھ جا سکتے ہیں۔
عمران خان نے ایم کیو ایم سے پہلے لاہور میں قاف لیگ کی قیادت کے ساتھ ملاقات کی تھی جس کے بعد یہ خبریں مارکیٹ ہوگئیں کہ گجرات کے چوہدریوں نے انہیں عدم اعتماد کی تحریک میں اپنی مکمل حمایت کا یقین دلوا دیا ہے۔ خان صاحب کی ملاقات کا مقصد قومی اسمبلی میں پانچ سیٹوں والے گجرات کے چوہدریوں کو اپوزیشن کی جانب سے کی گئی وزارت اعلیٰ کی آفر قبول کرنے سے روکنا تھا۔ تاہم اس ملاقات کے بعد قاف لیگ نے وضاحت کی کہ نہ تو انہوں نے عمران خان کو تحریک عدم اعتماد میں حمایت کا یقین دلایا ہے اور نہ ہی ان سے حمایت کا تقاضا کیا گیا۔ اب حالات یہ ہیں کہ گجرات کے چوہدری برادران عمران کو کھلی دھمکیاں دینے پر اتر آئے ہیں اور ان سے وزارت اعلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ قاف لیگ کے سیکرٹری جنرل طارق بشیر چیمہ نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ان کے ساتھ جھوٹے وعدے کیے جارہے ہیں اور وہ کوئی بچے نہیں ہیں جن کو لولی پاپ دیا جاسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر عمران نے ہمیں وزارت اعلی دینی ہے تو اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے سے پہلے دیں۔ کل کس نے دیکھا ہے۔
دوسری جانب عمران خان کی دو اتحادی جماعتیں ایسی بھی ہیں جن کی قیادت نے ان سے ملاقات سے معذرت کر لی ہے۔ ان میں قومی اسمبلی میں پانچ سیٹیں رکھنے والی بلوچستان عوامی پارٹی اور تین نشستیں رکھنے والا گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس شامل ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حکومت جن اتحادیوں کے سہارے کھڑی ہے ان میں سے کسی نے بھی عدم اعتماد کی تحریک دائر ہونے سے سیاسی بحران میں کھل کر حکومت کی حمایت کا اعلان نہیں کیا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ کپتان کی چاروں اتحادی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر فیصلے کرتی ہیں اور شاید اسی لیے اکھڑی ہوئی نظر آتی ہیں۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار فہد حسین سمجھتے ہیں کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ اپوزیشن اس وقت حکومت کی اتحادی جماعتوں سے گہرے رابطوں میں ہے بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ جو کچھ کیمروں کے سامنے نظر آرہا ہے اس سے کہیں زیادہ کام کیمروں کے پیچھے ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جتنی آفرز اپوزیشن کے پاس ہیں یہ حیران کن بات ہو گی کہ وہ کھل کر حکومت کا ساتھ دے سکے۔ حکومت بھی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے لیکن وہ مطمئن دکھائی نہیں دے رہے۔
فہد حسین کہتے ہیں کہ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ کسی بھی حکومتی اتحادی جماعت نے ابھی تک کپتان کی غیر مشروط حمایت کا اعلان نہیں کیا۔ مجھے یہی لگ رہا ہے کہ عمران خان کا اس وقت سب سے بڑا چیلنج اپنے اتحادیوں کو ساتھ رکھنا ہی ہے۔ ایک طرف تو حکمراں جماعت اپنے اتحادیوں کو ساتھ ملا کر آنے والی تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتی ہے جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی کو پارٹی کے اندر سے شدید دھڑے بندیوں کا سامنا ہے۔ اس وقت دو متحرک رہنما جہانگیر ترین اورعلیم خان جو کسی دور میں پارٹی کا اثاثہ سمجھے جاتے تھے، اپنی ہی پارٹی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ویسے تو یہ دھڑے پارٹی کے اندر موجود ہی تھے لیکن اب عدم اعتماد کی تحریک جمع ہونے کے بعد ان کو نظرانداز کرنا خود تحریک انصاف کے لیے ممکن نہیں۔ خود وزیر اعظم بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ’ترین اور علیم کبھی بھی اپوزیشن کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے، لیکن دلچسپ بات یہ کہ جب وزیراعظم لاہور میں یہ بات کر رہے تھے عین اسی وقت لندن میں علیم خان نواز شریف سے ملاقات کر رہے تھے۔ ان دونوں دھڑوں سے پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے کے لیے وزیر اعظم خود لاہور آئے اور اراکین اسمبلی سے ملاقاتیں کی اور وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کی ذمہ داری لگائی کہ وہ ’ڈیمج کنٹرول‘ کریں۔
معروف سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’علیم خان اور ترین گروپ کو آسانی سے رام نہیں کیا جا سکتا۔ وزیراعظم کی لاہور آمد کے وقت ان دھڑوں کے جو لوگ اجلاسوں میں شریک ہوئے وہ سب پنجاب اسمبلی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ابھی تک پنجاب میں وزیر اعلی بزدار کے خلاف کوئی سیاسی ہلچل نہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ’ترین گروپ تو کہہ چکا ہے کہ وزیراعظم سے بات ہی بزدار کے ہٹائے جانے کے بعد ہو گی۔ تو وہ کلیئر ہیں البتہ علیم گروپ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے وہ ان کی واپسی کے بعد پتہ چلے گا۔ البتہ میں سمجھتا ہوں کہ اتحادیوں سے زیادہ حکومت کو اپنے ہی اراکین سے زیادہ خطرہ ہے۔
دوسری جانب چوہدری برادران بھی کھل کر وزارت اعلی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ سے تعلق رکھنے والی کپتان کی دونوں اتحادی جماعتیں ایم کیو ایم اور جی ڈی اے بھی ان سے نالاں ہیں۔ لہذا موجودہ صورتحال میں عمران خان کا وزارت عظمی بچانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔

Related Articles

Back to top button