عمران اپنے پیروکاروں کے حال پر رحم کب کرے گا ؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ عمران خان اپنے غیر سیاسی اور انتہا پسندانہ رویہ کی وجہ سے اپنے پیروکاروں کو ریاست کی قوت کے روبرو کمزور سے کمزور تر بنارہے ہیں ۔عمران خان خدارا اپنے چاہنے والوں پر رحم کریں۔عوام میں جو مقبولیت عمران خان کو اس وقت میسر ہے وہ سدارہنے والی نہیں۔ وقت کے ساتھ مقبولیت کے اسباب بھی بدل جاتے ہیں عمران کے نصیب میں جو جیتنے والے پتے آئے ہیں انہیں احتیاط سے آخری بازی جیتنے کے لئے بچاکر رکھنے چاہئیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کی جانب سے پارٹی اور سیاست چھوڑنے کے اعلان کے حوالے سے لکھی گئی ایک تحریر میں کیا ہے . نصرت جاوید لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر شیریں مزاری کے نظریات سے مجھے شاذہی اتفاق رہاہے۔ رواں صدی کے آغاز میں شیریں مزاری پی ٹی وی کرنٹ افیئرز کے ایک پروگرام کی میزبان ہوا کرتی تھیں۔اکثر اپنے شو میں مدعو کرلیتیں پھر یہ ہوا کہ ڈاکٹر شیریں مزاری تحریک انصاف کو ’’پیاری‘‘ ہوگئیں۔عمران خان کے نظریات کے دفاع میں ’’شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار …‘‘ والا رویہ اپنا لیا۔ ان کی گفتگو سن کر مجھے دُکھ ہوتا۔دیانت داری سے محسوس کرتا تھا کہ بین لاقوامی سیاست کی سنجیدہ طالب علم ہوتے ہوئے ان کا لب ولہجہ ’’جارحانہ‘‘ نہیں بلکہ ’’استادوں‘‘ جیسا ہونا چاہیے . بالآخر اگست 2018ء آگیا۔ ڈاکٹر شیریں مزاری کو ’’انسانی حقوق‘‘ کی وزیر بنادیا گیا۔ میری خواہش تھی کہ ’’سیم پیج‘‘ کی برکتوں سے سانس لیتی حکومت میں ڈاکٹر صاحبہ’’انسانی حقوق‘‘ کی ’’نگہبانی‘‘ کا بوجھ نہ اٹھائیں. نصرت جاوید کہتے ہیں کہ عمران حکومت کی فراغت کے بعد ڈاکٹر صاحبہ پر ریاستی دبائو کا آغاز ہوا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے قوی امید تھی کہ ڈاکٹر صاحبہ مذکورہ دبائو کے آگے ڈٹ جائیں گی۔ ان کی دختر ایمان حاضر مزاری بھی ایک جی دار خاتون ہیں۔ریاستی جبر کا شکار ہوئے بلوچ طالب علموں کی ’’بازیابی‘‘ کیلئے عدالتوں میں پھیرے لگاتی رہتی ہیں۔مشکل حالات میں چند صحافیوں کو بلا معاوضہ قانونی کمک بھی پہنچاتی رہی ہیں۔ میری توقعات کے قطعی برعکس تاہم ڈاکٹر صاحبہ محاورے کی زبان میں ’’ٹوٹ‘‘ گئی ہیں۔منگل کے دن ان کا سوشل میڈیا پر اس ضمن میں دیا بیان ضرورت سے زیادہ وائرل ہوگیا۔ کھلے دل سے مگر اعتراف کرنے کو مجبور ہوں کہ ڈاکٹر صاحبہ سے وابستہ وڈیو کلپ کو میں صرف ایک بار دیکھ پایا ہوں۔اسے دیکھتے ہوئے مجھے حقیقی دُکھ یہ ہوا کہ وہ ایک ’’تحریری بیان‘‘ پڑھ رہی تھیں۔ڈاکٹرصاحبہ جیسی بے ساختہ اور برجستہ خاتون جب کوئی ’’تحریری بیان‘‘ پڑھتے ہوئے اپنی ’’جند‘‘ چھڑاتی نظر آئیں تو ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میں اس ’’دبائو‘‘ کا اندازہ لگاسکتا ہوں جس نے انہیں اس جانب دھکیلا۔ ریاستی جبر اس کا کلیدی سبب یقینا ہے۔ یہ مان لینے کے باوجود مگر ہمیں یہ بھی احساس کرنا چاہیے کہ پتھر دل دیوتا کے رویے والے عمران خان اپنے پیروکاروں کو غیر سیاسی اور انتہا پسندانہ رویہ کی وجہ سے ریاست کی قوت کے روبرو کمزور سے کمزور تر بنارہے ہیں۔ نصرت جاوید کہتے ہیں کہ عمران خان خدارا اپنے چاہنے والوں پر رحم کریں۔اپنے طرز سیاست کو نظرثانی کی چھلنی سے گزاریں۔عوام میں جو مقبولیت عمران خان کو اس وقت میسر ہے وہ صدارہنے والی نہیں۔ وقت کے ساتھ مقبولیت کے اسباب بھی بدل جاتے ہیں۔خدارا آپ کے نصیب میں جو جیتنے والے پتے آئے ہیں انہیں احتیاط سے آخری بازی جیتنے کے لئے بچاکررکھیں۔

Related Articles

Back to top button