عمران خان نے طالبان جنگجو کس کے کہنے پر پاکستان میں بسائے

سینئر سیاسی تجزیہ کار سینیٹر عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ وہ کسی پر بھی غداری اور بغاوت جیسے الزام کے حق میں نہیں لیکن کیا عمران خان کے قومی و ملکی مفاد کو مسسلسسل نقصان پہنچانے کے عمل کو صرف اس لئے نظرانداز کر دینا چاہئے کہ یہ سب کچھ کرنے والے کا نام ’عمران خان‘ ہے؟

کیا کرکٹ کی طرح سیاست کے میدان میں بھی ایسی کوئی لکیر نہیں کھینچی جاسکتی جس سے بال برابر پائوں باہر جانے پر ’’نوبال‘‘ قرار دے دیا جائے!اپنے تازہ سیاسی تجزئیے میں سینیٹر عرفان صدیقی لکھتے ہیں کہ کسی پر غداری یا بغاوت کا الزام لگانا، مقدمے داغنا اور ہتھکڑیاں ڈالنا مجھے کبھی اچھا نہیں لگا۔کچھ دِن پہلے میں نے یہ بات سینٹ میں کہی تو اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے پی ٹی آئی ارکان نے زوردار ڈیسک بجائے۔یہ بھی بجا کہ سیاست بنیادی طور پر اقتدار کا کھیل ہے۔کسی بھی سیاسی جماعت سے جڑے قبیلے کے ہر سیاستدان کی بغل میں اپنے اپنے مفاد کی چھوٹی یا بڑی پوٹلی ضرور دبی ہوتی ہے۔یہ پوٹلی اسے اپنے دعوئوں، بلند بانگ نعروں اور اصولوں سے کہیں زیادہ عزیز ہوتی ہےلیکن کیا غداری یا بغاوت سے قطع نظر، اپنی پوٹلی کے تحفظ کے لئے قوم وملک کے مفاد کو دائو پر لگانے کے عمل کو بھی کوئی نام دیاجا سکتا ہے؟

عرفان صدیقی کہتے  ہیں کہ پشاور کے المناک سانحے نے پوری قوم کو مضطرب کردیا ہے لیکن ایک سو سے زیادہ شہادتیں عمران خان صاحب کے دِل کو موم نہیں کرسکیں۔ سیاست کو ممکنات، مفاہمت اور سمجھوتوں کا کھیل کہاجاتا ہے۔ دروازے کھلے رَکھنا ہوتے ہیں لیکن خان صاحب کی اَنا کے فولادی قلعے میں نہ کوئی دروازہ ہے، نہ کھڑکی، نہ دریچہ بلکہ ایک روزنِ دیوار تک نہیں کہ وہ آنکھ لگا کر دیکھتے کہ اُس پشاور پر کیا گزری ہے جس پر دَس برس ان کی حکمرانی رہی یا کان لگا کر سو سے زائد شہدا کے پسماندگان کی آہ وبکا سنتے۔سو انہوں نے حکومت کی دعوت کو ٹھکراتے ہوئے انسدادِ دہشت گردی کے موضوع پر بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا۔

یہ قومی مفاد سے انحراف کی تازہ ترین مثال ہے، عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ عمران کی سیاست ایسی مثالوں سے اَٹی پڑی ہے۔2014 میں چینی صدر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری لے کر پاکستان آرہے تھے۔عمران خان سے دست بستہ التماس کی گئی کہ وہ صرف ایک ہفتہ کے لئے دھرنا اٹھالیں۔ چینی صدر کے رُخصت ہوتے ہی پھر آبیٹھیں۔ وہ نہ مانے۔یہ بغاوت تھی نہ غداری۔لیکن کچھ نہ کچھ تو تھا۔ اسے کیا نام دیں؟اسی دھرنے میں عوام الناس کو سول نافرمانی پر اُکسایا۔ بجلی کے بل اور ٹیکس ادا نہ کرنے کی تلقین کی۔  ہُنڈی کے ذریعے لین دین کا فرمان جاری کیا۔اسے حُب الوطنی کی کون سی کسوٹی پر پرکھیں؟ پی ٹی وی حملہ کس زُمرے میں آتاہے ؟ تحریک عدم اعتماد کی چاپ سنتے ہی، آئی ایم ایف سے رقم وصولی کے فوراً بعد عمران خان نے عوام کو فریب دیتے اور معاہدے سے کھلا انحراف کرتے ہوئے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں دَس روپے فی لیٹر کمی کا اعلان کیا تھا؟ حالانکہ اُن کی حکومت آئی ایم ایف سے معاہدہ کرچکی تھی کہ مجموعی طور پر ہر ماہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں سات روپے کا اضافہ کیا جائے گا۔آئی ایم ایف ناراض ہوکربدک گیا۔پی ڈی ایم کی حکومت بنی تو خان صاحب کی یہ ادا ملک کو ایک سو ارب روپے ماہانہ میں پڑ رہی تھی جو وفاقی حکومت کے مجموعی بجٹ سے دُگنی رقم تھی۔آج حکومت آئی ایم ایف سے رشتہ وتعلق کی رسی میں پڑی اُن گانٹھوں کو دانتوں سے کھول رہی ہے جو عمران خان اپنے ہاتھوں سے ڈال گئے۔محض اپنی ’پوٹلی‘ کی خاطر قومی خزانے میں نقب لگانے اور ملکی مفاد پر ضربِ کاری کی اس واردات کو کیا نام دیاجائے؟

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ عمران خان دہشت گردی کے خاتمے پر اتفاق راۓ کے لئے گھر سے نکلنے پر بھی آمادہ نہیں۔ ان  کو تو جاکر بتانا چاہئے تھا کہ دو برس قبل کس کے کہنے پر آپ نے تحریکِ طالبان پاکستان کے ہزاروں فدائین کو افغانستان سے لاکر خیبرپختونخوا میں لابسایا تھا؟

میں کسی پر بھی غداری اور بغاوت جیسے الزام کے حق میں نہیں۔ کیا عمران خان کے ان تمام اقدامات وفرمودات اور پیہم قومی مفاد سے ٹکراتی اُن کی سیاست کو ’’حب الوطنی‘‘ اور ’’قومی مفادات کی پاسداری‘‘ کہا جاسکتا ہے؟ آخر میں عرفان صدیقی سوال پوچھتے ہیں کہ کیا قومی وملکی مفاد پر مسلسل ضربیں لگانے کے ناروا عمل کو صرف اس لئے نظرانداز کردینا چاہیے کہ یہ سب کچھ کرنے والے کا نام ’عمران خان‘ ہے؟ بغاوت اور غداری نہ سہی، کیا قومی مفادات سے کھلے انحراف اور حب الوطنی کے درمیان کوئی عالم برزخ بھی ہے؟

Related Articles

Back to top button