عمران کادوبارہ اقتدار کا خواب اب پورا کیوں نہیں ہوگا؟

سینئر سیاسی  تجزیہ کار سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ عمران خان کا سارا جہاد اب سرِشام  بے ربط تقریروں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔زمان پارک کی گھٹن میں ان کی  جاگتی آنکھوں میں اب یہ  ڈرائونے خواب اترنے لگے ہیں کہ آصف زرداری نے انہیں قتل کرانے کے لئے دہشت گرد خرید لئے ہیں ۔ اپنی تازہ تحریر میں عرفان صدیقی عمران خان کے وزیر اعظم کے منصب سے اترنے کے بعد ان کی ذہنی حالت بیا ن کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ارکان، خان صاحب کی حکمت وفراست کا سیاپا کررہے ہیں۔پرویز الٰہی ٹھٹھہ اڑانے، جملے کسنے اور دُشنام کرنے میں لگے ہیں۔ امریکی سائفر کا بیانیہ …  جو بائیڈن اور حسین حقانی سے ہوتا ہوا محسن نقوی تک آن پہنچا ہے۔ فیڈرل لاجز کے سو سے زیادہ کمرے خالی کرائے جارہے ہیں۔قصربنی گالہ کے گردوپیش صف بستہ سیکورٹی گارڈز خیبرپختونخوا سدھار گئے ہیں۔ خان صاحب خود اختیاری نظربندی میں چلے گئے ہیں۔ اُن کا سارا جہاد سرِشام دو جھنڈوں کے درمیان بیٹھ کر بے ربط تقریروں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ بنی گالہ کے پُرفضا ماحول کے خواب تو حسین ودلکش تھے، زمان پارک کی گھٹن میں جاگتی آنکھوں میں اب ڈرائونے خواب اترنے لگے ہیں۔ خان صاحب نے کہا’’ آصف زرداری نے مجھے قتل کرانے کے لئے دہشت گرد خرید لئے ہیں۔ طاقت ور سہولت کار بھی سازش میں شریک ہیں۔

عرفان صدیقی کے مطابق نیند میں چلنا یعنی ’’خواب خرامی‘‘ بھی خطرناک بیماری ہے لیکن جاگتی آنکھوں کے خواب، ایسا مرض ہے جو سرطان کی طرح سب کچھ چاٹ جاتا ہے اور خبر تک نہیں ہوتی۔عمران خان کی ساری سیاست، جاگتی آنکھوں کے خود تراشیدہ خوابوں اور پُرفریب تعبیروں کے تعاقب کی دلچسپ کہانی ہے۔ کسی خاص لمحے کوئی خواب  اُن کی جاگتی آنکھوں میں بسیرا کرلیتا ہے۔ پھر اُنہیں راستے کی رکاوٹیں اور سنگلاخ زمینی حقیقتیں، کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف بننے کے صرف تین سال بعد، 1999ءمیں، مارشل لا کا ناقوس بجتے ہی انہوں نے ایک خواب تراشا اورپرویز مشرف کی سپاہ کا حصہ بن گئے۔ جاننے میں تین برس لگ گئے کہ یہ لاحاصلی کا کھیل تھا۔2011ء میں  اُن کی جاگتی آنکھوں میں ایک نئے خواب کی جوت جا گی۔ 2013ء کے انتخابات سے پہلے ہی انہوں نے خود کو وزیراعظم کی مسند پر فائز کرلیا۔ایسا نہ ہوا تو اُن کے شورِماتم  نے آسمان سرپہ اٹھالیا۔خان صاحب کی بے کلی بڑھی تو ایک خواب لندن میں تراشا گیا۔ چوہدری برادران اور علامہ طاہرالقادری بھی اپنی اپنی سرمہ دانیاں لئے پہنچ گئے۔2014ءمیں اسلام آباد کی شاہراہِ دستور پر ایک سرکس لگا۔ امپائر کی انگلی،شاخِ گُل کی طرح خواب میں تھرکتی رہی لیکن عملاً نہ اٹھی۔2018ءمیں اُنکی جاگتی آنکھوں کے خواب نے تعبیر پائی لیکن سب جانتے ہیں کہ کِن سَکھیوں سہیلیوں نے انہیں  وزیراعظم ہائوس کے حجلہِ عروسی میں لابٹھایا۔یہ الگ داستان ہے کہ آج وہ سَکھیاں سہیلیاں بھی اپنے پراگندہ بالوں میں راکھ ڈالے بین کررہی ہیں۔ 2022ء میں جب خان صاحب کو لگا کہ نائو ڈَگمگانے لگی ہے تو خود فریبی کی گُپھا سے ایک اور خواب نے انگڑائی لی۔ ’’میں ناقابلِ تسخیر ہوں۔میں امریکی سائفر سے کھیلوں گا۔بندے خرید لوں گا۔تحریک عدم اعتماد ایوان میں نہیں لگنے دوں گا۔قاسم سوری سے رولنگ دِلا کر اُسے ناکارہ بنادوں گا۔یہ بھی نہ ہو پایا تو اسمبلی توڑ دوں گا۔‘‘خان صاحب نے یہ سب کچھ کیا لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔

عرفان صدیقی کے مطابق ابھی اِس جواں مرگ خواب کا کفن بھی میلا نہ ہوا تھا کہ جاگتی آنکھوں میں ایک نئے خواب کا غنچہ پھوٹا۔’’میں عوامی طاقت کے بَل پر انقلاب لائوں گا۔’چوروں اور ڈاکوئوں‘ کی حکومت گرا کر دَم لوں گا۔ نئے انتخابات کرائوں گا۔ اِنہیں مرضی کا آرمی چیف نہیں لگانے دوں گا۔‘‘ دَانش کہہ رہی تھی کہ اسمبلی میں رہو۔صرف دو تین ووٹوں کی برتری رکھنے والی ڈھلمل مخلوط حکومت کا ناطقہ بند کئے رکھو لیکن جاگتی آنکھوں کی خودفریبی کچھ اور کہہ رہی تھی۔ عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ خان صاحب نے اجتماعی استعفے دئیے۔ عوام کو اُکسایا، جلسوں، جلوسوں، دھرنوں، لانگ مارچوں کی چتا سُلگائی۔ جھنجھلاہٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑ دیں۔ اب جاگتی آنکھوں میں ایک نئے خواب کا سراب آبسا ہے۔’’میں مقبول ہوں۔ انتخابات میں دوتہائی اکثریت حاصل کروں گا۔‘‘ دلیل یہ ہے کہ اکتوبر 2022 کے ضمنی انتخابات میں، میں نے حریفوں کو شکست فاش دے دی تھی۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ 71 فی صد عوام نے اِن انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔صرف 29 فی صد پولنگ ہوئی۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کے تین حلقوں میں انتخابات ہوئے۔ ایک میں پی ٹی آئی ہار گئی۔ دو میں خان صاحب جیت گئے۔  تب پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی اور ’’ڈسکہ کی دُھند‘‘ والے سارے فن کار مورچوں پہ تھے۔ عرفان صدیقی کے مطابق عمران خان کی جاگتی آنکھیں اب  اسی  ’’فتح مبین‘‘ سے مستقبل کے خواب بُن رہی ہیں۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات نے بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑا۔

Related Articles

Back to top button