فوج کے غیر سیاسی ہونے کا اعلان سیاسی کیوں ہے؟

پاکستانی فوجی قیادت کی جانب سے بار بار کے اعلانات کے باوجود سیاسی جماعتوں کو اب بھی یقین نہیں ہے کہ فوج سیاست سے علیحدگی اختیار کرلے گی وہ سمجھتی ہیں کہ یہ ایک سیاسی بیان ہے۔ پاکستانی جماعتیں گذشتہ دہائیوں کے دوران پاکستان کی فوج پر ملکی سیاست میں مداخلت کے الزامات عائد کرتی رہی ہیں۔ لیکن حالیہ کچھ عرصے میں فوج کو اس حوالے سے زیادہ تنقید کا سامنا زیادہ کرنا پڑا ہے جس کا تذکرہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ یوم شہدا پر ہونے والی اپنی آخری تقریر میں بھی کر چکے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ فوج کی جانب سے الیکشن 2018 میں دھاندلی کے ذریعے عمران خان کو وزیر اعظم بنوانا تھی کیونکہ بعد میں یہ پروجیکٹ الٹا پڑ گیا اور عمران نے فوج کو ہی گریبان سے پکڑ لیا۔

 

2018 کے عام انتخابات کے بعد تب کی حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے فوج پر عمران خان کو اقتدار دلانے میں معاونت کے الزامات عائد کیے تھے۔اس سے قبل 2017 میں سپریم کورٹ کی طرف سے پانامہ کیس میں نااہل قرار دیے جانے اور وزارتِ عظمٰی ختم ہونے کے بعد تب کے وزیرِاعظم نواز شریف نے بھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ تاہم فوج کی سیاسی مداخلت کے حوالے سے بحث پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر زیادہ نمایاں تب ہوئی جب رواں برس اپریل میں عمران کی حکومت اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ایک کامیاب تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ختم ہوئی۔

 

سابق آرمی چیف قمر باجوہ نے ریٹائرمنٹ سے قبل شہدا کے خاندانوں سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ ’ہماری فوج جو دن رات قوم کی خدمت میں مصروف ہے اس کو گاہے بگاہے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ گذشتہ 70 سالوں میں فوج کی طرف سے سیاست میں مداخلت ہے، جو غیر آئینی ہے۔‘  انھوں نے مزید دعویٰ کیا کہ ’یہی وجہ ہے کہ فروری 2021 میں فوج نے کافی مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ مستقبل میں کبھی کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم سختی سے اس پر عملدرآمد کے لیے پرُعزم ہیں۔‘ سیاسی جماعتوں کی طرف سے فوج کے سربراہ کے اس بیان کو خوش آئندہ قرار دیا جا رہا ہے تاہم انہیں اب بھی یقین نہیں ہے کہ فوج خود کو غیر سیاسی کر پائے گی۔

 

مسلم لیگ ن کی رہنما اور ممبر پنجاب اسمبلی عظمٰی بخاری سمجھتی ہیں کہ اگر فوج کا ادارہ مداخلت نہ کرنے کی پالیسی کے حوالے سے پُرعزم ہے تو ’اس سے زیادہ خوش آئند بات کیا ہو سکتی ہے۔‘ تاہم اُن کے خیال میں مکمل طور پر مداخلت کو ختم ہونے میں وقت لگے گا۔کبھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوتی لیکن یہاں سیاسی جماعتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ہمیں یہ طے کرنا ہو گا کہ ہم نے پاکستان میں سیاسی نظام کو آگے کس طرح بڑھانا ہے، اور کس سمت لے کر جانا ہے۔فوج کے راولپنڈی میں واقع جنرل ہیڈکوارٹرز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’گیٹ نمبر چار اب بند ہونا چاہیے۔ یہ سب کے لیے، سیاستدانوں کے لیے، صحافیوں کے لیے، سب کے لیے بند ہونا چاہیے۔عظمٰی بخاری نے دعویٰ کیا کہ اُن کی جماعت سمیت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی پی ڈی ایم میں شامل ’سیاسی جماعتیں تو اس بارے میں کافی حد تک کلیئر ہیں لیکن پی ٹی آئی کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان پہلے یہ شکایت کرتے رہے ہیں کہ وہ نیوٹرل کیوں ہیں اور اب کہتے ہیں کہ انھیں نیوٹرل ہونا چاہیے۔ ان کی بات کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

 

یاد رہے کہ تحریکِ انصاف کو اس سے قبل بھی مخالف سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس الزام کا سامنا رہا ہے کہ وہ فوج کی سیاسی مداخلت کی مدد سے اقتدار میں آئی تاہم پی ٹی آئی اس کی تردید کرتی ہے۔ پی ٹی آئی ترجمان فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ اب تحریک انصاف پرو اسٹیبلشمنٹ سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہو چکی ہے جو کہ عوامی امنگوں کے عین مطابق ہے۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ عمران سیاست میں فوج کی مداخلت کے خلاف نہیں ہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ فوج مداخلت تو کرے لیکن ان کو اقتدار میں لانے کے لیے۔ لیکن فوادکا اصرار ہے کہ ہم نہ تو پہلے کبھی  فوجی معاونت سے حکومت میں آئے اور نہ ہی اب ہم ایسی کسی مدد کی خواہش رکھتے ہیں اور نہ ہی ہم اس وقت فوج کی مداخلت کی طرف دیکھ رہے ہیں، ہم تو عوام کی طرف دیکھ رہے ہیں اور ہمیں عوام ہی کی حمایت حاصل رہی ہے۔

 

دوسری جانب جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں آنے اور اپنی حکومت چلوانے والے عمران خان اب فوج کی نئی قیادت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ سیاست میں دخل نہ دینے کی پالیسی پر عملدرآمد کرے۔ لیکن ساتھ میں ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ نئی فوجی قیادت موجودہ حکومت پر فوری نئے الیکشن کے انعقاد کے لیے دباؤ ڈالے۔ تاہم ایسا مطالبہ کرتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سراسر غیر آئینی ہے کیونکہ فوج حکومت کے ماتحت ادارہ ہے جس کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے، نہ کہ الیکشن کروانا۔ لہذا سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر اب بھی فوج کی سیاست میں مداخلت کا کوئی امکان ہے تو وہ تحریک انصاف کی وجہ سے ہے جس کی قیادت اس کوشش میں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ دوبارہ سے اقتدار کی چوسنی موجودہ حکومت کے منہ سے نکال کر اس کے منہ میں ڈال دے۔

Related Articles

Back to top button