فیض حمیدکی فوج سے بے آبرو ہو کر نکلنے کی کہانی

سانپ اور سیڑھی کے کھیل میں ننانوے کے ہندسے پر پہنچ کر ڈسے جانے والے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید جنرل قمر جاوید باجوہ کی جگہ نیا آرمی چیف بننے کا سپنا اپنی آنکھوں میں سجائے بالآخر وقت سے پہلے ریٹائر ہو کر گھر روانہ ہوئے۔ پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے برسوں پرانے پروجیکٹ عمران خان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور پھر انکی ہائبرڈ حکومت چلانے والے فیض حمید کو پاکستانی سیاسی تاریخ کا متنازعہ ترین آئی ایس آئی سربراہ قرار دیا جاتا ہے۔ فیض حمید کو نہ صرف عمران خان بلکہ جنرل قمر باجوہ بھی نیا آرمی چیف بنانا چاہتے تھے اور اسی لیے انہیں اکتوبر 2021 میں پشاور کا کور کمانڈر بنایا گیا تھا تاکہ وہ اس عہدے کے لئے اہل ہو سکیں۔

لیکن تب کے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے نئے آئی ایس آئی چیف کی تقرری پر غیر ضروری پنگا ڈالے جانے کے بعد پہلے عمران خود فارغ ہوئے اور پھر فیض حمید کی بھی باری لگ گئی۔ فیض ٹولے کی جانب سے اپنے خلاف ہونے والی تمام تر سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے جنرل عاصم منیر نئے آرمی چیف بنے تو فیض حمید کے پاس گھر جانے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچا تھا، لہٰذا وہ بہت بے آبرو ہو کر کوچے سے نکل گئے۔

 

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فیض حمید نے اپنے انٹیلی جنس کیریئر میں جو گند کیا اس کے باعث انہیں پاکستانی سیاسی تاریخ میں ایک ایسے قابل نفرت کردار کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے نہ صرف 2018 کے الیکشن میں ننگی دھاندلی کروائی بلکہ سیاسی انجینئرنگ کے علاوہ عمران خان اور اپنے سیاسی اور صحافتی مخالفین کو نہ صرف اغوا اور گرفتار کروایا بلکہ ان پر قاتلانہ حملے بھی کروائے۔

 

بی بی سی کے لیے ایک تفصیلی رپورٹ میں سینئر صحافی ماجد نظامی نے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے کیریئر اور ان سے جڑے تنازعات پر نظر ڈالی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بریگیڈیئر فیض حمید نے چیف آف سٹاف کی حیثیت سے راولپنڈی کور میں کام کیا۔ بطور میجر جنرل انھوں نے جنرل کمانڈنگ افسر پنوں عاقل ڈویژن کے طور پر کام کیا اور اس کے بعد تقریباً ڈھائی سال آئی ایس آئی کے انٹرنل ونگ کے سربراہ رہے، اس عہدے کو ڈی جی سی کے مخفف سے جانا جاتا ہے۔

 

لیفٹیننٹ جنرل بننے کے بعد دو مہینوں کے لیے انھوں نے بطور ایڈجوٹنٹ جنرل کام کیا۔ اس کے بعد دو سال سے زائد عرصہ کے لیے جنرل فیض حمید آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔ اس کے بعد وہ آٹھ مہینے کور کمانڈر پشاور کے طور پر کام کرتے رہے اور بعد ازاں کور کمانڈر بہاولپور تعینات ہوئے۔ پاکستان آرمی کی تاریخ میں وہ افسران انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جو دو مختلف کورز کے کمانڈر رہے۔ گذشتہ 75 سالوں میں صرف 11 لیفٹیننٹ جنرلز نے ایک سے زائد کورز کو کمانڈ کیا اور فیض حمید اُن میں سے ایک ہیں۔

 

بطور بریگیڈیئر فیض حمید نے 2015 میں تب کے کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل قمر باجوہ کے ماتحت کام کیا۔ بریگیڈیئر فیض حمید راولپنڈی کور کے چیف آف سٹاف تھے اور یہیں سے ان کا جنرل قمر باجوہ سے ایک مضبوط اور ذاتی تعلق بنا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جولائی 2016 میں جب وہ جی او سی پنوں عاقل تعینات تھے۔میجر جنرل فیض حمید کے بھائی سکندر حیات چکوال میں اپنے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے ٹریکٹر حادثے میں فوت ہو گئے۔ اس وقت کے آئی جی ٹریننگ لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ دوسرے ہی دن چکوال کے قصبے لطیفال میں تعزیت کے لیے پہنچے۔ اُسی سال کے آخر میں آرمی چیف بننے کے فوراً بعد جنرل قمر باجوہ نے میجر جنرل فیض حمید کا پنوں عاقل سے تبادلہ کرتے ہوئے انھیں آئی ایس آئی میں ڈی جی کاؤنٹر انٹیلی جنس تعینات کیا۔ آنے والے برسوں میں فیض حمید ایک طاقتور، بااثر اور متحرک جنرل کے طور پر سامنے آئے۔

 

27 نومبر 2017 کو مسلم لیگی حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان ہونے والے معاہدے کے آخر میں بوساطت میجر جنرل فیض حمید لکھا ہوا تھا۔ یہی وہ معاہدہ تھا جس کی بدولت جنرل فیض حمید کا نام عوامی حلقوں میں معروف ہوا اور اس کے بعد یہ سلسلہ رک نہیں پایا۔بعد ازاں تحریک لبیک سے معاہدے کے معاملے پر سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں ایسے افسران کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا جنھوں نے سیاسی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے اپنے حلف کی پاسداری نہیں کی۔

 

2017 سے 2019 تک آئی ایس آئی کے ڈی جی سی رہنے والے میجر جنرل فیض حمید نے مسلم لیگ ن کی قیادت کو عمران کے ایما پر سخت انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنوایا اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ نیب کو استعمال کیا۔ اس دور میں سیاسی انتقام، گرفتاریوں، وفاداریوں کی تبدیلی کے الزامات سامنے آئے۔ عمران خان کے دور حکومت میں مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الٰہی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا ہماری پارٹی کے رہنمائوں کو تحریک انصاف میں شامل کروانے کی کوششیں کر رہے تھے اور ہم نے اس کا تذکرہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی سے بھی کیا۔

 

سابق گورنر اور رہنما مسلم لیگ ن محمد زبیر اس موقف کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’تحریک انصاف کے حق میں پہلے جنرل پاشا اور پھر جنرل ظہیر السلام نے کام کیا اور پھر آخر کار میجر جنرل فیض حمید کے دور میں عمران خان کو وزیر اعظم بنایا گیا۔ تحریک انصاف کی مرکزی کمیٹی کے ممبر، سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کی رائے میں ’ماضی میں آرمی کی مداخلت کسی نہ کسی طریقے سے ہوتی رہی ہے۔ اس مرتبہ معاملہ کچھ مختلف رہا۔

 

جنرل فیض حمید کے دور میں سیاسی مداخلت خاصی سرعام اور کسی حد تک بے ڈھنگی بھی ہونا شروع ہو گئی۔ گلی محلوں اور عوامی حلقوں میں آئی ایس آئی کا کردار زیر بحث آنے لگا۔ پہلے یہ سب کچھ ڈھکے چھپے انداز میں ہوتا تھا لیکن اب سب کچھ سامنے ہو رہا تھا۔ بطور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید نے افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا اور افغان طالبان سے مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی اپنائی جو الٹی پڑ گئی اور اب طالبان ایک مرتبہ پھر حملے کرتے ہوئے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قدم جما رہے ہیں۔

 

گذشتہ سال جب نئے آئی ایس آئی چیف کی تقرری کا معاملہ سامنے آیا تو وزیر اعظم عمران خان کی خواہش تھی کہ فیض حمید کو اس عہدے پر مزید کچھ عرصہ کام کرنے دیا جائے۔ اس بات کا خود عمران خان برملا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ تاہم لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو نیا آئی ایس آئی چیف تعینات کر دیا گیا لیکن وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے تعیناتی کی سمری کی منظوری میں تاخیر ہوئی جسے فوج اور تحریک انصاف حکومت کے درمیان تناؤ کا باعث سمجھا گیا۔

 

ماجد نظامی کے مطابق کئی حلقوں میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے کیریئر سے جڑے تنازعات کے حوالے سے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی جماعت کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔چند ماہرین کے مطابق وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے کارکنوں نے جنرل فیض حمید کے کردار کی غیر معمولی حد تک تشہیر کی جس کے باعث اُن کا نام ایک جماعت سے منسلک ہو کر رہ گیا۔ ’خصوصاً سوشل میڈیا پر ان کا تاثر پاکستان آرمی کے پسندیدہ جنرل کی بجائے ایک جماعت کے محبوب جنرل کا بن کر رہ گیا۔ جنرل حمید گل کی طرح جنرل فیض حمید کو بھی حد سے زیادہ شہرت یا بدنامی کا نقصان ہوا اور انہیں آرمی چیف کا سپنا آنکھوں میں سجائے وقت سے پہلے رخصت ہونا پڑا۔

Related Articles

Back to top button