فیض حمید اورمحسن داوڑ کی تلخ کلامی کیوں ہوئی؟


قومی سلامتی کمیٹی کے حالیہ اجلاس کے دوران سابق آئی ایس آئی چیف اور موجودہ کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کے مابین تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے معاملے پر تلخ کلامی ہو گئی۔

یاد رہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس 5 جولائی کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا تھا جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے علاوہ آئی ایس آئی چیف اورلیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے بھی شرکت کی تھی۔ پارلیمانی فورم نے کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات جاری رکھنے کا متفقہ فیصلہ کیا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ پارلیمانی ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی وزیراعظم کے احکامات پر تشکیل دی جائے گی جو مذاکراتی عمل کی ناصرف نگرانی کریگی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کوئی بھی فیصلہ کمیٹی کی اجازت سے مشروط ہوگا۔

قومی سلامتی کی کمیٹی کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم اور کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے بریفنگ دی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے دوران قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کے طالبان مخالف سخت سوالات پر وزیراعظم شہباز شریف نے انہیں کئی بار ٹوکا۔ مگراس دوران کور کمانڈرپشاور لیفٹننٹ جنرل فیض حمید اورمحسن داوڑ میں سخت سوال اور جواب کا تبادلہ ہوا اورنوبت تلخی تک آ گئی۔ جماعت اسلامی کے سینیٹرمشتاق احمد کی جانب سے بھی سخت سوالات کا فوجی قیادت کو سامنا رہا۔ ذرائع کے مطابق ٹی ٹی پی کی شرائط پر مذاکرات نہیں ہونگے بلکہ حکومت پاکستان کی شرائط پر مذاکرات کئے جائینگے۔ فوجی قیادت نے اپنے متفقہ پیغام میں واضح کیا کہ ٹی ٹی پی سے جاری مذاکرات میں پارلیمنٹ کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرینگے۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پابند سلاسل ممبر قومی اسمبلی علی وزیر کے حوالے سے دو ممبران نے سوال پوچھا کہ علی وزیر کو ذاتی عناد کی وجہ سے قید میں رکھا گیا، مگر اس سوال کے جواب میں فوجی قیادت مکمل خاموش رہی اور کوئی جواب نہ دیا۔ ایک اور سوال کے جواب میں کہ کیا طالبان پاکستان واپس آ کر قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینگے؟ فوجی قیادت نے کہا کہ نہیں، ان کی واپسی آئین اور قانون کے تحت ہوگی اور کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اجلاس کے دوران فوجی قیادت نے پہلی بار تصدیق کی کہ پاکستان آرمی کے کچھ افسران نے افغانستان جا کر ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کئے۔ فاٹا انضمام پر فوجی اورسیاسی قیادت نے متفقہ فیصلہ کیا کہ کسی صورت قبائلی اضلاع کا انضمام ختم نہیں ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں کہ پارلیمان کو اعتماد میں نہ لے کر فوجی قیادت نے کس کی اجازت سے مذاکرات شروع کئے؟ پر جواب دیتے ہوئے فوجی قیادت نے کہا کہ ہم نے اعتماد بحال کرنے کے لئے ٹی ٹی پی سے ملاقاتیں کی لیکن مذاکراتی عمل باقاعدہ شروع نہیں ہوا اور مذاکرات پارلیمنٹ کی اجازت سے ہی شروع ہونگے۔

ممبران پارلیمان کی جانب سے فوجی قیادت سے جب سوال کیا گیا کہ کابل میں طالبان نے بندوق کے زور پر ایک ریاست پرقبضہ کیا تو پاکستان میں وہ کیسے پرامن رہینگے؟ اس سوال پرفوجی قیادت نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ سب کچھ آئین اورقانون کے تحت ہوگا اور کسی کی مسلح واپسی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ بطور مجموعی اتفاق پایا گیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات ہونے چاہئیں۔ یہ بھی اتفاق کیا گیا کہ مذاکرات آئین پاکستان کے تحت ہونے چاہئیں۔ مشتاق احمد نے کہا فوجی قیادت پر پارلیمان نے واضح کیا کہ فاٹا انضمام کی واپسی کسی صورت قبول نہیں ہے۔

سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ طالبان کو ہتھیار پھینکنا ہوں گے تب ہی بات چیت آگے چل سکے گی۔ انھوں نے کہا کہ حکومت سلامتی کمیٹی اجلاس کا اعلامیہ جاری کرے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہونا چاہیے تھا۔

Related Articles

Back to top button