جنرل فیض حمید آرمی چیف کی دوڑ میں بدستور موجود


سابق صدر آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی جانب سے چند حالیہ بیانات کے بعد فوجی ترجمان نے جس بھر پور طریقے سے ملکی تاریخ کے متنازعہ ترین جرنیل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا دفاع کیا ہے اس سے ایک بات عیاں ہو گئی ہے کہ وہ ابھی تک اگلے آرمی چیف کی دوڑ میں موجود ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے پرو عمران گروپ کے امیدوار ہیں۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ کورکمانڈر پشاور کے حوالے سے اہم سینئر سیاست دانوں کے بیانات ‘انتہائی نامناسب’ ہیں۔ دراصل فوجی ترجمان کا اشارہ آصف زرداری کے اس بیان کی جانب تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ فیض حمید تو کھڈے لائن لگ چکا ہے۔ دراصل سابق آئی ایس آئی چیف کو فوج میں اس پروعمران دھڑے کا حمایتی تصور کیا جاتا ہے جو نومبر میں نئے آرمی چیف کے انتخاب سے پہلے نیا الیکشن چاہتا ہے۔ جنرل فیض حمید بھی آرمی چیف کے امیدوار ہیں اور کہا جاتا ہے کہ عمران خان کو نومبر سے پہلے حکومت سے نکالنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ اپنے اس فیورٹ جرنیل کو آرمی چیف بنا پائیں۔ کہا جاتا ہے کہ ریٹائرڈ فوجیوں کا ایک بڑا دھڑا بھی فیض حمید اور عمران خان کا حمایتی ہے۔ پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ شاید جنرل باجوہ نئی حکومت سے اپنی عہدے میں توسیع مانگیں گے لیکن اب یہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ وہ توسیع کی خواہش نہیں رکھتے اور نومبر میں نیا آرمی چیف مقرر کر دیا جائے گا۔ تاہم کچھ ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ جنرل باجوہ اور فیض حمید کے اب تک مثالی تعلقات ہیں اور وہ اب آرمی چیف کی دوڑ میں شامل ہے جس کا ایک ثبوت فوجی ترجمان کی فیض کے دفاع میں جاری کردہ پریس ریلیز ہے۔
ان حالات میں جب بطور آرمی چیف فیض حمید کے مستقبل بارے سوال کیا گیا تو آصف زرداری نے کہا تھا کہ وہ تو کھڈے لائن لگ چکے ہیں۔ جب اس معاملے پر مزید بحث شروع ہوئی تو قومی اسمبلی میں بلاول بھٹو نے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے چند روز پہلے انہیں ایک حکومتی وزیر کے ذریعے مارشل لا کے نفاذ کی دھمکی دی گئی تھی۔ ان دونوں بیانات کے بعد اب فوجی ترجمان نے ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ پشاور کور پاکستان آرمی کی ایک ممتاز فارمیشن ہے، پشاور کور دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف قومی جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس اہم کور کی قیادت ہمیشہ بہترین پروفیشنل ہاتھوں میں سونپی گئی ہے، پشاور کور کمانڈر کے حوالے سے اہم سینئر سیاستدانوں کے حالیہ بیانات انتہائی نامناسب ہیں۔
آئی ایس پی آر نے کہا کہ ‘ایسے بیانات فوج اور قیادت کے مورال اور وقار پر منفی طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ افواج پاکستان کے بہادر سپاہی اور افسران ہمہ وقت وطن کی خود مختاری اور سالمیت کی حفاظت اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر رہے ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا کہنا تھا کہ سینئر قومی سیاسی قیادت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ادارے کے خلاف ایسے متنازع بیانات سے اجتناب کریں’۔
ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے بیان کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ ‘قانون میں بالکل واضح ہے اور وقت آنے پر آئین اور قانون کے تحت ہی نئے آرمی چیف کی تعیناتی ہوجائے گی۔انہوں نے کہا کہ ‘اس عہدے کو بلاوجہ موضوع بحث بنانا، اور اس پر بات کرنا، اس عہدے کو متنازع بنانے کے مترادف ہے، جو نہ ملک کے مفاد میں ہے اور نہ ہمارے ادارے کے مفاد میں ہے’۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پچھلے چند دنوں میں ہماری سینیئر سیاسی قیادت کی طرف سے مختلف مواقع پر کافی ایسے بیانات آئے ہیں جو انتہائی نامناسب ہیں’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم کافی عرصے سے بطور ادارہ برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور بار بار کہہ رہے ہیں، درخواست کر رہے ہیں کہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں اور سیاسی گفتگو کا حصہ مت بنائیں’۔ میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ‘ہمارے ملک کے سلامتی کے چینلجز بہت زیادہ ہیں، ہماری افواج مشرقی، مغربی اور شمالی سرحد اور اندرونی سیکیورٹی کی مد میں انتہائی اہم ذمہ داریاں سرانجام دے رہی ہیں اور ہماری تمام قیادت کی توجہ ان ذمہ داریوں پر ہے اور اپنے ملک کی حفاظت کے اوپر ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘جو بھی سیاسی صورت حال ہے، اس کے اوپر بطور ادارہ ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہے’۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بیان میں کہا کہ پاکستان کے عوام اپنی مسلح افواج سے محبت کرتے ہیں اور مسلح افواج کا کردارعوام کے لیے ہمیشہ اچھا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ مسلح افواج اور عوام کے کردار میں کسی قسم کی دراڑ نہیں آسکتی، پچھلے چند دنوں میں تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت نے مسلح افواج کی قیادت کے خلاف بیانات دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سیکیورٹی چیلنجز اتنے بڑے ہیں کہ ہم ملک کی سیاست میں شامل نہیں ہوسکتے، اگر ملک کی حفاظت کے اندر کوئی بھول، چوک ہوئی تومعافی کی گنجائش نہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ فوج کے اندر تقسیم ہوسکتی ہے تو اس کو فوج کے بارے پتا ہی نہیں، پوری فوج ایک لڑی میں پروئی ہوئی ہے۔
حیرت کا مقام ہے کہ ملکی سیاست کے سارے راستے صرف ایک کلیدی عہدے پر تقرری کی طرف جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف پاک فوج کے ترجمان دعویٰ کر رہے ہیں کہ فوج سیاست سے تائب ہو چکی ہے، اسے متعدد محاذوں پر قومی تحفظ کی ذمہ داریاں پوری کرنا ہیں اور ملکی سیاست دان انتخابات کے بارے میں فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سیاست دان خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں اپنے طور پر یہی سمجھ رہے ہیں کہ یہ فیصلہ فوجی قیادت کے اشارے سے ہی ممکن ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس رائے کے مطابق کوئی سیاسی فیصلہ اس وقت تک قابل عمل اور پائیدار نہیں ہو گا جب تک اسے فوجی قیادت کی آشیر باد حاصل نہ ہو۔ حیرت انگیز طور پر آئی ایس پی آر کے سربراہ کے سوا کوئی سیاست دان یا تجزیہ نگار اس رائے سے اختلاف نہیں رکھتا۔ عمران خان کی سرکردگی میں تحریک انصاف کی قیادت مسلسل اس بات پر زور دے رہی ہے کہ فوج براہ راست مداخلت کر کے حکومت کو فوری طور سے اسمبلیاں توڑنے اور انتخابات منعقد کروانے پر مجبور کرے۔
یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ عمران خان کی جانب سے حکومت مخالف تحریک کا بنیادی مقصد الیکشن کروانے کا مقصد نئے آرمی چیف کی تقرری کا اختیار حاصل کرنا ہے تا کہ وہ فیض حمید کو اس عہدے پر فائز کر سکیں۔
اسی تناظر میں سیاسی گفتگو کرتے ہوئے نہ صرف فوج بلکہ مخصوص فوجی افسروں کے کردار پر بات کی جاتی ہے۔ عمران خان نے حال ہی میں امریکی سازشی نظریے کو مقامی رنگ دینے کے لئے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور پشاور کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو اپنی ’آنکھیں اور کان‘ بتاتے ہوئے یہ کہنے سے گریز نہیں کیا کہ وہ کیوں انہیں بدستور انٹیلی جنس چیف رکھنا چاہتے تھے۔ اس دعوے کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ ’جنرل فیض حمید عمران کی آنکھیں اور کان نہیں بلکہ وہ ہاتھ تھے جن کے ذریعے وہ سیاسی مخالفین کی گردن دبوچتے تھے‘ ۔ اسی لئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بی بی سی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ کہا کہ اگر فیض حمید سنیارٹی کے لحاظ سے موزوں ہوں گے اور نئے آرمی چیف کے لئے ان کا نام تجویز کیا جائے گا تو حکومت ضرور اس پر غور کرے گی۔ جبکہ مریم نواز نے اس پر گرہ لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ’آرمی چیف جو بھی ہو، وہ کوئی اہل شخص ہو جس پر کوئی داغ نہ ہو‘ ۔ گزشتہ روز ملک کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے آصف زرداری کی اہم پریس کانفرنس میں بھی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام سامنے آیا اور ان کا نام لے کر سوال پوچھا گیا جس پر پیپلز پارٹی کے تجربہ کار رہنما کا کہنا تھا کہ ’وہ بیچارا تو کھڈے لائن لگا ہوا ہے‘ ۔
لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے بارے میں ملکی سیاست کے حوالے سے گفتگو کا ایک ہی عذر پیش کیا جاسکتا ہے کہ ان کے بارے میں یہ تاثر عام کیا گیا ہے کہ وہ عمران خان کی ’گڈ بکس‘ میں تھے اور اب بھی ہیں اور وہ اب بھی پوری طرح سیاست میں ملوث اور آرمی چیف بننے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ انہیں آئی ایس آئی کا سربراہ رکھنے کے لئے بطور وزیر اعظم عمران خان نے آرمی چیف سے اختلاف مول لیا اور تحریک عدم اعتماد کے دوران ایک مرحلہ پر یہ خبریں بھی پھیلی تھیں کہ عمران خان جنرل باجوہ کو ہٹا کر فیض حمید کو آرمی چیف بنانا چاہتے تھے اور اس بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی گئی تھی۔
اس صورتحال میں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوج اور سیاست دان اس مشکل سے اسی صورت میں باہر نکل سکتے ہیں اگر فوج عملی طور سے سیاسی فیصلوں پر اثرانداز ہونا بند کردے۔ آئینی طور سے منتخب حکومت کے ہر فیصلہ کو بہر طور قبول کیا جائے اور امن و امان قائم رکھنے کے لئے ہر طرح اس کی مدد کی جائے۔ اس تاثر کو زائل کیا جائے کہ کوئی سیاسی قوت غیر قانونی ہتھکنڈوں سے حکومت کو چیلنج کرے گی اور فوج خاموش تماشا دیکھتی رہے گی۔ عمران خان 2014 کی طرح ایک بار پھر اسلام آباد پر چڑھائی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اشارے دے رہے ہیں کہ فوج کو اس مرحلے پر ماضی کی طرح معاونت کرنا پڑے گی۔ یہی فوج کی غیر جانبداری کا پہلا اور مشکل ترین امتحان ہو گا۔

Related Articles

Back to top button