نواز کو تاحیات نااہل کرنے والے نے اسے کالا قانون کیوں قرار دے دیا؟


سابق وزیراعظم نواز شریف کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ دینے والے بینچ کے رکن چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے اب عمران خان کے ساتھی فیصل واوڈا کو الیکشن کمیشن کی جانب سے تاحیات نااہل قرار دیے جانے کے فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ تاحیات نااہلی کا قانون ایک کالا قانون ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ اگر یہ واقعی کالا قانون ہے تو انہوں نے ماضی میں نواز شریف کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے انہیں نااہل قرار کیوں دیا تھا؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ نواز شریف کی تا حیات نا اہلی کا فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال نے لکھا تھا حالانکہ اس بینچ میں چار اور جج بھی شامل تھے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے 13 درخواستوں کی سماعت کے بعد 14 فروری 2018 محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا تھا۔

4 اکتوبر 2022 کو فیصل واوڈا کیس کی سماعت کے دوران تا حیات نا اہلی کے قانون کو کالا قانون قرار دینے والے عمر عطا بندیال نے 2018 میں نواز شریف کی تاحیات نا اہل کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیے گئے شخص کی نااہلی کی مدت تاحیات ہوگی اور وہ شخص عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے گا۔اس فیصلے کے تحت نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نااہلی کی مدت کو تاحیات قرار دیا گیا۔ بندیال نے کہا کہ آرٹیکل کے تحت اراکین کا صادق اور امین ہونا ضروری ہے، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہوگی اور جب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ رہے گا نااہلیت بھی رہے گی۔

یاد رہے کہ فیصل واوڈا نے جنوری میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے نااہلی کے خلاف درخواست مسترد کرنے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، درخواست میں الیکشن کمیشن، قادر مندوخیل سمیت 5 افراد کو فریق بنایا گیا ہے۔ ‏عدالت عظمیٰ میں فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی کے خلاف اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پی ٹی آئی رہنما فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو غلط بیان حلفی پر تحقیقات کا اختیار حاصل ہے، الیکشن کمیشن کے تاحیات نااہلی کے حکم کو کالعدم قرار دیں بھی تو حقائق تو وہی رہیں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کیس میں حقائق کا درست جائزہ لیا ہے، وکیل نثار کھوڑو نے مؤقف اپنایا کہ ‏اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلے میں واضح کہا کہ فیصل واوڈا نے دہری شہریت تسلیم کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ‏کیس میں سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن تاحیات نااہلی کا حکم دے سکتا ہے یا نہیں، ‏کیس کو تفصیل سے سنیں گے۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ تاحیات نااہلی کا آرٹیکل 62 ون ایف کالا قانون ہے، موجودہ کیس کو محتاط ہو کر تفصیل سے سنیں گے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 6 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ رواں سال 9 فروری کو الیکشن کمیشن نے سال 2018 کے انتخابات میں کاغذات نامزدگی جمع کرواتے ہوئے جھوٹا حلف نامہ جمع کروانے پر فیصل واوڈا کو آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ف) کے تحت تاحیات نااہل قرار دیا تھا، جبکہ انہیں بطور رکن قومی اسمبلی حاصل کی گئی تنخواہ اور مراعات دو ماہ میں واپس کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ای سی پی نے فیصل واڈا کے بطور سینیٹر منتخب ہونے کا نوٹی فکیشن بھی واپس لے لیا تھا جبکہ ان کی جانب سے بحیثیت رکن قومی اسمبلی، سینیٹ انتخابات میں ڈالے گئے ووٹ کو بھی ‘غلط’ قرار دیا گیا تھا۔ فیصل واوڈا نااہلی کیس 22 ماہ سے زائد عرصے تک زیر سماعت رہا، اس کیس پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی سماعت ہوئی۔الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف فیصل واوڈا نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے قرار دیا تھا کہ فیصل واوڈا کی نااہلی برقرار رہے گی، الیکشن کمیشن کے فیصلے میں مداخلت کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ فیصل واوڈا کی دہری شہریت سے متعلق متفرق فورمز پر درخواستیں دی گئیں، فیصل واوڈا نے کاغذات نامزدگی میں جعلی بیان حلفی جمع کرایا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ فیصل واوڈا نے دہری شہریت سے متعلق عدالت میں حیلے بہانوں سے التوا لیا اور نااہلی کے فیصلے سے قبل ہی قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا، ان کا اپنا کنڈکٹ ہی موجودہ نتائج کا باعث بنا۔

Related Articles

Back to top button