ورلڈ کپ جیتنے والے کپتان کی سپورٹس مین سپرٹ کہاں گئی؟

سینیئر صحافی مظہر عباس نے کہا ہے کہ ایک کرکٹ فین ہونے کے ناطے مجھے زندگی بھر یہ افسوس رہے گا کہ پاکستان کے لیے 1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والے سابق کپتان عمران خان، سیاسی میدان میں سپورٹس مین سپرٹ دکھاتے ہوئے اپنے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کی بجائے آئین شکنی پر اتر آئے جس کے نتیجے میں آج پاکستان ایک بڑے بحران کا شکار ہو چکا ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں مظہر عباس کہتے ہیں کہ افسوس صرف اس بات کا ہے کہ ہم سب سے زیادہ دنیا دیکھنے والے، مغرب کو سمجھنے والے، اور اخلاقیات کا سبق دین والے کرکٹ لیجنڈ عمران خان نے سپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ نہیں کیا ورنہ وہ آئین کی خلاف ورزی کرنے کی بجائے استعفیٰ دے کر ایک اعلیٰ مثال بھی قائم کر سکتے تھے۔ انکا کہنا ہے کہ کھلاڑی آخری بال تک ضرور لڑتا ہے مگر ہار جائے تو بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے شکست تسلیم بھی کرتا ہے۔

مظہر کہتے ہیں کہ مجھے کرکٹ دیکھنے کا جنون کی حد تک شوق رہا ہے اور اسپورٹس مین اسپرٹ کے حوالے سے میں عمران کے کزن ماجد خان سے بہت متاثر ہوں۔ انہیں جب بھی لگتا تھا کہ بال ان کے بلے کو چھو کر وکٹ کیپر کے پاس گئی ہے تو وہ ایمپائر کی انگلی اٹھانے کا انتظار کیے بغیر خود ہی کریز چھوڑ دیتے تھے۔ لیکن اتوار کے روز قومی اسمبلی میں عمران خان نے چار منٹ کا جو تماشہ لگوایا اس نے بہت سے سنجیدہ سوالات کو جنم دیا ہے۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ حکومت اتنی جلدی میں تھی کہ ڈپٹی اسپیکر رولنگ پڑھتے وقت اسپیکر اسد قیصر کا نام بھی لے گئے جن کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک اسی دن جمع ہو چکی تھی۔ وزیر اعظم اور ان کے رفقاء کار نے 8 مارچ سے لے کر 27 مارچ تک پوری کوشش کی کہ پارٹی منحرفین واپس آجائیں، اتحادی مان جائیں اور انہیں پورا یقین تھا کہ وہ تحریک کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اب اگر ’بین الاقوامی سازش‘ کا پتا انہیں 7 مارچ کو چل گیا تھا تو پھر یہ ساری کوششیں کس لیے تھیں۔

یہ انکشاف اس وقت کیوں کیا گیا جب تمام تر ذاتی ملاقاتوں اور پارٹی رہنمائوں کی کوششوں کے باوجود کوئی واپس آنے کو تیار نہ ہوا۔ پھر جیسا کہ ہوتا ہے، آپ نے منحرفین کے گھر والوں تک کو دھمکی دیدی مگر وہ پھر بھی واپس نہ آئے۔ اس سے بہت بہتر ہوتا کہ کپتان اکثریت کھونے کے بعد میدان میں مقابلہ کرتے۔ الیکشن میں جانے کے علاوہ آپ کے پاس کوئی راستہ ہی نہیں تھا کیونکہ دوسری طرف 190 سے زیادہ اراکین تھے۔

بقول مظہر عباس، آخر خان صاحب یہ بھی تو بتائیں کہ ان منحرفین کو پارٹی میں لانے کا فیصلہ کس کا تھا؟ اتحادیوں کو کس نے آپ کے حوالے کیا تھا، ساری زندگی کرکٹ میں ’’نیوٹرل ایمپائر‘‘ لانے کا کریڈٹ لینے والے کپتان کو اب نیوٹرل جانور کیوں نظر آنے لگے۔ بہرحال اس وقت صورتحال یہ ہے کہ قومی اسمبلی تحلیل ہے اور سب کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں۔ عین ممکن ہے کہ جس ’امریکی سازش‘ کا انکشاف کیا گیا ہے اس کی تحقیقات کے لیے کوئی کمیشن بھی تشکیل پا جائے۔

یہاں کچھ سوالات متحدہ اپوزیشن سے بھی ہیں۔ کیا عدم اعتماد کی تحریک کے لیے یہ وقت مناسب تھا جبکہ الیکشن میں ایک سال باقی تھا اور پنجاب اور سندھ میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن)اور پی پی پی کو کامیابی مل رہی تھی یہی صورتحال کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن میں سامنے آئی۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ اب میدان دوبارہ سجنے والا ہے اور لگتا کچھ یوں ہے کہ ایمپائر نے فیصلہ کیا ہے کہ میچ دیکھنا ہے کھیلنا نہیں ہے۔ خاصی اوپن فیلڈ ملنے جارہی ہے۔ عمران نے امریکہ مخالف کارڈ اور نواز شریف، آصف زرداری، اور مولانا نے مخالف کارڈ کھیلنا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ اگلے الیکشن میں ممکنہ طور پر کیا ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں خیبر پختونخواہ میں آج بھی پی ٹی آئی سب سے مضبوط جماعت نظر آرہی ہے مگر دوسرے صوبوں کی طرح تنظیمی مسائل کا شکار ہے۔ یہاں مقابلہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی میں ہی نظر آ رہا ہے۔

لیکن کراچی میں سب سے دلچسپ مقابلے ہونے جارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پی پی پی اور ایم کیو ایم معاہدے پر عملدرآمد شروع ہونے جارہا ہے؟ اگر یہ معاہدہ اتحاد کی شکل اختیار کرلیتا ہے تو شاید فائدہ دونوں کو ہو ورنہ پی ٹی آئی اس صورت حال سے فائدہ اٹھا سکتی ہے، مگر اس چیز کا امکان نہیں کہ اسے ماضی کی طرح 14 نشستیں قومی اور 25 صوبائی کی ملنے جا رہی ہیں۔

اسکے علاوہ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) کی بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہونے کا امکان ہے۔ جماعت اسلامی، تحریک لبیک اور پاک سرزمین پارٹی بھی بھر پور مقابلے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ کچھ خبریں ایم کیو ایم (لندن) کے دوبارہ متحرک ہونےکی بھی ہیں۔ لیکن سندھ کے دیگر شہروں میں خاص طور پر دیہی سندھ میں پی پی پی کو کسی بڑے چیلنج کا سامنا نہیں۔

جنرل باجوہ نے عمران کے حالیہ اقدامات کی نفی کیسے کی؟

مظہر عباس کے بقول بلوچستان کی سیاست کا اپنا مزاج ہے مگر حالیہ عدم اعتماد کی تحریک کے دوران سابق صدر آصف زرداری نے تقریباً تمام موثر جماعتوں کو اپنے ساتھ کمال مہارت سے جمع کرلیا لہٰذا وہاں اپوزیشن مضبوط نظر آتی ہے۔ لہکن اصل مقابلہ پنجاب میں ہونا ہے۔ کپتان کو یقین ہے کہ یہاں ان کا ’امریکہ مخالف کارڈ‘ چلے گا مگر مشکل یہ ہے کہ نہ ان کے پاس اس وقت جہانگیر ترین ہیں نہ علیم خان اور نہ ہی چوہدری سرور۔ اس وقت اہم کردار اتحادی چوہدری پرویز الٰہی، شاہ محمود قریشی، خسرو بختیار، فواد چوہدری وغیرہ کا ہوگا کیونکہ یہاں کی سیاست طاقتور برادریوں اور گھرانوں پر ہے۔ الیکٹ ایبلز اور سیاسی منحرفین کا اپنا رول ہوگا۔

دوسری طرف مسلم لیگ (نواز) آج بھی صوبے کی سب سے مضبوط جماعت ہے اور چارسال میں اس کو توڑنے کی ساری کوششیں ناکام رہیں۔ تنظیمی طور پر بھی اسے پی ٹی آئی پر برتری حاصل ہے۔ لیکن بقول مظہر، اگلے الیکشن کا یہ تجزیہ ایمپائر کے نیوٹرل رہنے سے مشروط ہے ورنہ نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔

Senior journalist Mazhar Abbas statement about Imran | video

Related Articles

Back to top button