پاکستان کو امریکہ سے ایف 16 جہاز کیوں خریدنے پڑے؟


1984 میں پاکستانی فوج انڈیا کی جانب سے کہوٹہ نیوکلیئر لیبارٹری پر ممکنہ حملے کی صورت میں بھارتی بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر پر حملے کا منصوبہ بنا چکی تھی، پاکستان تب ایٹمی طاقت کے حصول سے کئی برس دور تھا اور انڈیا کے ہاتھوں فوجی شکست کی یادیں پاکستان کے دفاعی منصوبہ سازوں کے ذہن میں ابھی تازہ تھیں۔پاکستان کے پاس اس وقت جوہری ہتھیار نہیں تھے لیکن اسکی جوہری اسٹیبلشمنٹ ایٹمی پروگرام پر کام کر رہی تھی، ایئر چیف مارشل انور شمیم کو یہ بتانے میں 25 سال لگے کہ 1984 اور 1985 میں پاکستان ایئر فورس کی جانب سے ایف سولہ طیاروں کے حصول کے وقت کیا ہوا تھا؟

ایئر مارشل (ر) شمیم کے مطابق انھیں تب کے صدر جنرل ضیا الحق نے 1979 میں کہوٹہ میں جوہری اثاثوں کے بارے میں بات چیت کے لیے بلایا، اپنی کتاب ’کٹنگ ایج پی اے ایف‘ میں انور شمیم نے انکشاف کیا کہ ’جنرل ضیا کے پاس مصدقہ اطلاع تھی کہ انڈیا کہوٹہ پر حملے اور اسے تباہ کرنے کا منصوبہ تیار کر رہا تھا۔ کتاب میں لکھا کہ میں نے جنرل ضیا سے کہا کہ کہوٹہ کا دفاع ناممکن ہے کیونکہ یہ انڈین سرحد سے تین منٹ کی پرواز کے فاصلے پر ہے، ہمارے پاس جواب دینے کے لیے آٹھ منٹ کا وقت ہے اور جب تک پی اے ایف کے طیارے متعلقہ مقام تک پہنچیں گے، اُس وقت تک دشمن اپنا کام مکمل کر چکا ہوگا اور بحفاظت اپنی سرحد کے اندر واپس جا چکا ہوگا۔ جنرل ضیا نے پوچھا کہ ملکی دفاع کے سب سے اہم ہتھیار کا دفاع کیسے کیا جا سکتا ہے اور جواب یہ تھا کہ جدید ترین طیارے اور جدید ہتھیارحاصل کیے جائیں اور اگر انڈیا اپنے رویے پر کاربند رہا تو پاکستان ایئر فورس ترومبے میں انڈین جوہری ٹھکانے کو اڑا دے گی۔

میں نے صدر سے کہا کہ کئی صلاحیتوں کے حامل لڑاکا طیارے ایف سولہ کو جدید ہتھیاروں سمیت حاصل کیا جائے جو پی اے ایف کی ضروریات کے لیے بہترین اور موزوں ترین ہے، 1981 میں امریکی انتظامیہ نے ایف فائیو ایز کی پیشکش کی اور بعد میں ایف فائیو جیز سے مدد دینے کا کہا لیکن پاکستان نے ایف سولہ کے سوا کوئی طیارہ لینے سے انکار کر دیا، آخر کار امریکہ نے اسے تسلیم کر لیا۔

جنوری 1983 میں پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کا پہلا دستہ موصول ہوا جس پر ایئر مارشل (ر) شمیم نے جنرل ضیا کو اپنی ذمہ داری سے متعلق خط لکھا کہ میں اب یہ تصدیق کرنے کے قابل ہوں کہ انڈیا کہوٹہ پر حملہ نہیں کرے گا۔ ایئر مارشل (ر) شمیم نے تب کے سیکرٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی منیر حسین کو خط لکھا تھا جو اس وقت جوہری توانائی پر ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے جا رہے تھے کہ وہ اپنے انڈین ہم منصب کو آگاہ کر دیں کہ پاکستان کے جوہری اثاثوں پر حملے کی مہم جوئی کے نتائج کیا ہوں گے۔ جب منیر حسین نے اپنے انڈین ہم منصب سے بات کی تو اُس نے جواب دیا کہ نہیں بھائی، ہم آپ کی صلاحیت جانتے ہیں اور ہم کبھی بھی ایسا مشن نہیں کریں گے، پاکستان کے 85 ایف سولہ طیارے قومی فخر کا ذریعہ ہیں اور دنیا کی ایلیٹ میں پاکستان کی ایئر فورس کے بڑے مقام کا باعث ہیں، اس پروگرام کا آغاز 1981 میں ہوا تھا جب افغانستان میں سویت یونین نے مداخلت کی تھی، امریکہ نے پاکستان کو ایف سولہ طیارے فروخت کرنے کی حامی بھر لی تھی تاکہ انھیں سوویت یونین اور افغان طیاروں کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔

1986 سے 1990 کے دوران پاکستانی ایف سولہ طیاروں نے کم از کم 10 افغان اور روسی طیارے، ہیلی کاپٹر اور ٹرانسپورٹ طیارے مار گرائے تھے، چنانچہ 1990 میں امریکہ نے 28 ایف سولہ طیارے پاکستان کو دینے سے انکار کر دیا جس کیلئے پاکستان 658 ملین ڈالر کی رقم بھی ادا کر چکا تھا۔ اگرچہ امریکہ نے یہ رقم پاکستان کو واپس کر دی تھی، لیکن اسلام آباد نے امریکہ کو ایک قابل اعتبار اتحادی کے طور پر شک سے دیکھنا شروع کر دیا اور تحفظات پیدا ہوگئے۔ نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ نے پاکستان کو 18 جدید ترین بلاک 52 ایف سولہ طیارے دینے پر اتفاق کیا جن کی لاگت تقریباً 1.4 ارب ڈالر تھی، اس کے ساتھ ٹارگٹنگ پوڈز اور الیکٹرانک وار فیئر پوڈز بھی شامل تھے۔ اسکے علاوہ امریکہ نے پاکستان کے پاس موجود 52 پرانے ماڈل کے ایف سولہ طیاروں کی اپ گریڈیشن کٹس بھی دیں، یہ ساز و سامان ملنے کے بعد ایف سولہ طیارے بلاک 52 قسم کے طیاروں کے ہم پلہ ہوگئے۔

اس وقت پاکستان کے پاس مجموعی طور پر 85 ایف سولہ ہیں جن میں سے 66 پرانے بلاک 15 طیارے ہیں اور 19 جدید ترین بلاک 52 ہیں۔ یہ طیارے امریکی ٹیکنیکل سکیورٹی ٹیم کی نگرانی میں ہیں، پاکستانی ایئر فورس جے ایف 17 تھنڈر بھی اڑاتی ہے جو چین کے ساتھ مل کر بنایا گیا ہے جن اڈوں پر جدید ترین ایف سولہ موجود ہیں امریکہ نے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ ان طیاروں کو دیگر طیاروں سے الگ رکھا جائے اور انھیں صرف اسی علاقے تک محدود رکھا جائے جہاں انھیں کھڑا کیا جاتا ہے۔

Related Articles

Back to top button